کب ڈوبے گا یہ سرمایہ پرستی کا سفینہ

صرف پاکستان ہی میںنہیں بلکہ دنیا بھر میں آمدن کے مقابلے میں اخراجات میں اضافہ اور معاشی مشکلات میں روز افزوں اضافہ کا رجحان ہے غربت بنیادی مسئلہ ہے جو کسی بھی معیشت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا حامل امر ہے غربت اور کم و قلیل آمدنی انسانی وسائل کی سرمایہ اندرون کے عمل میں رکاوٹ کا باعث امر ہے اگر اسے ام المسائل سے تشبیہ دی جائے تو چنداں مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ غربت ہی کی وجہ سے کوئی شخص یا معاشرہ وہ کچھ نہیں کر پاتا جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے غربت کی وجہ سے عام آدمی کو اچھی غذا سے لے کر اچھی تعلیم تک رسائی نہیں ہو پاتی جوان کی استعداد اور صلاحیتوں کی جلد آگے بڑھنے اور ایک بہتر زندگی گزارنے کا لازمی جزو ہے کم آمدنی اور وسائل کی کمی ہی کے سبب معاشی ترقی اور پیداواری صلاحیت کا حصول نہیں ہو پاتا اور یہ عمل سست اور ناقابل رسائی ہوتا ہے غربت ایک ایسی صورتحال اور کیفیت کا نام ہے جس میں مبتلا افراد کے وسائل اور آمدنی دونوں ناکافی اور ادھورے سے بھی کم ہوتی ہیں عالمی اداروں کے معیار کے مطابق ایک دو ڈالر فی کس روزانہ یا اس سے بھی کم جس کی آمدنی ہو وہ غریب کے زمرے میں آتا ہے ہمارے ملک میں یہ معیار نہیں بلکہ یہاں تو لاکھوں لوگوں اور خاندانوں کی تو سرے سے کوئی آمدنی ہی نہیں ہوتی بہرحال ہمارا جائزہ غربت اور اس سے پیدا شدہ حالات اور مسائل کا ہے ہمارے معاشرے میں اس درجہ کی غربت کا عالم ہے کہ اپنی عدم آمدن یا قلیل آمدنی کے باعث لوگ روز مرہ اشیاء کی خریداری کی بھی استطاعت سے محروم ہوتے ہیں غربت کئی ایک سماجی معاشرتی مسائل کا سبب بن رہا ہے نوبت اس کی آجاتی ہے کہ معاشی مشکلات کے ستائے لوگ مجرمانہ سرگرمیوں تک میں ملوث ہوتے ہیں معاشی حالات کے باعث رہزنی ، ڈکیٹی اور پرس وموبائل چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور باوجود کوشش کے اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی نظر آتا ہے جس کے اسباب میں نشے کی لت اور پیٹ کا دوزخ ہے ۔ پاکستان میں جس شرح کی غربت اور جو معاشی حالات ہیں کسی دور حکومت میں بھی اس حوالے سے حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا گیا ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ غربت کے اعداد و شمار گھٹا کے پیش کرے تاکہ اس کی کارکردگی کے بارے میں منفی تاثر نہ ہو لیکن ایسا کرنا ممکن نہیں معاشرے میں جو چیز ہوگی وہ ظاہر ہونا ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مختار اداروں اورحکومتی اعداد و شمار میں نمایاں فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2005ء میں غربت کی شرح 22.3فیصد تھی اور 2007.08 میں کم ہو کر 17.5رہ گئی جبکہ محبوب الحق سنٹر فار ڈویلپمنٹ کے مطابق 2008-09 میں 73 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اس طرح اب گزشتہ سالوں کے دوران بھی ظاہر ہے کہ غربت کی شرح کے صحیح اعداد و شمار پیش کرنے کی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی عالمی بنک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 51فیصد ہے جس طرح کی مہنگائی اور معاشی حالات چل رہے ہیں اس سے تو اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شرح 70سے 80 فیصد کے درمیان ہو گی اور اگر نہ بھی ہو تب بھی ملکی آبادی کی نصف سے زائد آبادی کی ضروری سہولیات یہاں تک کہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہے کی شرح کوئی معمولی بات نہیں اور اس صورتحال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صورتحال روز بروز تشویشناک ہوتی جارہی ہے پاکستان کی معاشی صورتحال اور غربت میں اضافہ کی شرح کی کئی ایک وجوہات ہیں اور یہ مستقل وجوہات بن گئی ہیں جس میں کمی آنے کی بجائے اضافہ یاکم از کم برقرار رہنے کا عمل جاری ہے اس میں محدود مسائل و وسائل میں اضافہ کی شرح سب کے سامنے ہے اس کے ساتھ جڑا مسئلہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ کا ہے جہالت وخواندگی اورانسانی وسائل میں ٹیکنالوجی اور انتظامی صلاحیتوں کے فقدان اور نااہلی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے انرجی کے بحران سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملوں اور دیگر اہم صنعتوں کی بندش سے بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے غذائی اشیاء کی نگرانی یوٹیلٹی بلوں میں بڑے اضافے اور غیر منصفانہ اور جابرانہ ٹیکس نظام کی وجہ سے غرباء اور امراء کے درمیان پائی جانی والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور عام آدمی کے لئے کئی ایک معاشی و سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں غربت کی صورتحال مزید ابتر اور لوگوں کی حالت قابل رحم ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 75فیصد آبادی دیہات میں مقیم ہے جنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں دیہی آبادی کی آمدنی کا انحصار زراعت اور گلہ بانی پر ہے اس کے علاوہ چھوٹے موٹے کام ہی میسر ہیں لیکن حکومت محولہ شعبوں کی ترقی اور لوگوں کی حالت زار میں بہتری پر مجرمانہ طور پر غفلت کی مرتکب ہوتی ہے اور یہ صورتحال ہر دور میں اور عرصہ دراز سے جاری ہے غربت اور بے روزگاری معاشی طور پر کمزور ہونے کا براہ راست تعلق تعلیم کی شرح پر اثر انداز ہوتی ہے ایک رپورٹ کے مطابق بیس فیصد سے زائد افراد کبھی سکول گئے ہی نہیں جو لوگ سکول جاتے ہیں اور سرکاری سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے حوالے سے بھی زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں صورتحال سب کے سامنے ہے علاوہ ازیں کے مسائل اور اعداد و شمار بھی پریشان کن اور مایوس کن ہیں جس کا پھر کبھی جائزہ لیں گے محولہ حالات اور صورتحال کی بڑی وجہ معقول رزگار کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر ناا نصافی پر مبنی نظام اور یکساں مواقع اور مساوی مواقع کا نہ ہونا ہے جس کے نتیجے میں دولت و آمدن سے لے کر صحت ، تعلیم اور روزگار ، کاروبار سبھی مواقع اور سہولیات کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور جو لوگ محروم رہ جاتے ہیں یہ حالات ان کی زندگی اور حالات پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں جب تک نظام کی اصلاح نہ ہو گی اس وقت تک غربت کی شرح میں کمی او لوگوں کی زندگی میں بدلائو کا بھی امکان نہیں جملہ حالات کے جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا فطری امر ہے کہ موجودہ استحصالی نظام میں ہمارے مسائل کاحل نہیں اور نہ ہی اس نظام کے تحت آنے والوں سے اس کی ا مید رکھی جانی چاہئے کہ وہ عام آدمی کے مسائل و مشکلات کے حل کا تعین کریں گے اور اگر وہ کرنے کی سعی بھی کریں تب بھی سرمایہ دارانہ ماحول اور سودی نظام اس راہ کی وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جن کو عبور کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہو گا ہمارے مسائل کی بڑی وجہ ہمارا نظام حکومت اور حکمران ہیں جن سے نجات کا واحد راستہ اسلامی نظام اور خلافت کا قیام ہی اس لئے ہے کہ اسی نظام کی کامیابی کا وعدہ ہے اور یہی نظام فلاحی ہونے کی عملی مثالیںپیش کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:  برصغیر کے نو بل انعام یافتگان