موسم کی تبدیلی بہت سی آسائشیں اور مشکلات بھی ساتھ لاتی ہے خصوصاً گرمی کے تھپیڑے اتنے زور دار ہوتے ہیںکہ ہر شہری موم کی طرح پگھل ہی جاتاہے۔ان موسمی تبدیلی کے ساتھ آنے والے مچھروں کی یلغارپاکستان کے دیہاتیوں کو زیادہ اور شہریوں کوقدرے کم تنگ کرتی ہے۔بات یہاں تک ہوتی تو قابل برداشت تھی لیکن ان میں سے کچھ مچھرایسے ہیں کہ جو جان لیوابیماری پھیلاتے ہیں ان میںسے ملیریااورڈینگی عام ہیں ۔مچھروں کی وجہ سے بیماریاںپھیلانے میںخاص طورپر دومہینے اگست اور اکتوبر بہت خطرناک ہوتے ہیں ۔پاکستان میں ہرسال تقریباً دس لاکھ لوگ ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔یہ وہ کیسیز ہیںکہ جو ریکارڈ ہوجاتے ہیں یا جن میں طبی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں کچھ کیسیز ایسے بھی ہیںجن میں بظاہرکوئی علامت نہیں ہوتی جیسے کہ 12%دیہاتیوں کے خون میںملیریا کے جراثیم تو ہوتے ہیں لیکن ان میں ملیریاکے اثرات بظاہر نظر نہیں آتے ۔ پاکستان کے مختلف علاقوںمیں ملیریا پھیلنے کے حالات مختلف ہیں بلوچستان میں ملیریاکے مریض سب سے زیادہ ہوتے ہیںملک کے دیگرصوبوںمیںبھی ملیریا کے کیسز ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر سیلابوںکے زمانے میں ۔ بہت ساری جگہوں پر گھڑوں میں پانی کے تالاب خطرناک بیماریاں بھی پھیلتی ہیں اور مچھروںکی افزائش کا ایک بہت بڑاذریعہ بھی ہے ۔حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ اگر کھڑے اس پانی کو بروقت ختم کردیں تومچھروں کی افزائش کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے، مچھرپانی کے ان جوہڑوں میں انڈے دیتے ہیں ان کے لاروے کافی عرصہ تک یہاںرہتے ہیں اور وقتاًفوقتاً پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔مچھروں کے پھیلائو کو روکنے کے لئے حکومت مختلف قسم کے سپرے جن میں آج کل فوگنگ بھی آگیا ہے کرکے مچھروں کی افزائش اور ان کے زیادہ پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے ۔
میں اپنے کالموں میں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں معلومات بھی بہم پہنچاتا رہتاہوں اور ان بیماریوں سے بچائو کیونکر ممکن ہوسکتا ہے اس طرف بھی آگاہی دینا مقصود ہے۔ذراسی احتیاط سے موذی اور جان لیوا بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اب ڈینگی اور ملیریا ہی کو لیا جائے تو دنیا میں ہر سال تین کروڑ سے زیادہ لوگوںمیں ملیریا بیماری ہوجاتی ہے اور ان میں سے اس مرض سے دس لاکھ افراد مرجاتے ہیں ا ن مرنے والوں میں زیادہ تربچے ہوتے ہیں۔ہم مانتے ہیں کہ ان میں 90%افریقہ کے ملکوں میں اموات ہوتی ہیں لیکن پاکستان اورہماری طرح کے کئی ملک بھی اس کا حصہ ہیں۔ڈینگی بیماری بھی صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ آسٹریلیا، شمالی اور وسطی امریکہ ،شمالی ایشیاء اوربراعظم افریقہ کے کئی ممالک شامل ہیں۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ملیریااور ڈینگی سے بچائوممکن ہے اور وہ بھی بہت کم اخراجات کے ساتھ ۔اگر سب سے آسان حل بتایا جائے تو متاثرہ مچھر سے بچنا ہی بہترین حل ہے اور اس کے لئے کپڑے کی جالی استعمال کی جائے اور بہت ہی سستی ادویات یا احتیاط ہیں جس کے استعمال سے بیماری کی خطرناک حد سے بچا جاسکتا ہے اس سے بھی زیادہ دلچسپی کی بات ہے کہ افریقہ جیسے غریب علاقہ کے ملکوں ایتھوپیا اور یوگنڈا نے ملیریاسے بہت جلد قابو پایایعنی دوسال سے بھی کم عرصہ میں۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہمارے پاس ان سے زیادہ وسائل اور آگاہی ہے جس سے پاکستان میں ملیریااور ڈینگی جیسے امراض کو پھیلنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
ملیریا اور ڈینگی مچھروں کے ذریعے پھیلنے والاامراض ہیں مچھر کے کاٹنے کے بعد انسان کے خون کے سرخ خلیوں کو متاثر کرتا ہے ۔ملیریا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو عام طور پر بخار اور سردرد ہوتاہے اور اگر بروقت ادویات نہ لی جائے تو کبھی کبھار قومہ (طویل بے ہوشی)بلکہ موت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ڈینگی وائرس کے حملہ سے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں اکثر اچانک شدید بخار ہوجاتا ہے یہ 104سے 105ڈگری فارن ہائیٹ تک ہوسکتا ہے چار سے سات دنوں کے بعد اثر شروع ہوتاہے اس کے بعد جلد کی حساسیت ہوجاتی ہے اورڈینگی کے مریض کو اطمنان نہیں ملتا۔ڈینگی کی علامات میں آنکھوں کے پیچھے شدید درد اور سر درد ہوسکتا ہے الٹی بھی ایک علامت ہے ۔ڈینگی کی علامات میں ملیریا کی طرح سردرد اور بخار سے شروع ہوتا ہے تاہم ڈینگی کی علامات آگے خطرناک ہیں ان میں پٹھوںاور ہڈیوں کا دردجلد کی خارش اور خاص علامات میں ڈینگی بخار جس سے خون کے خلیات سے پلیٹلس کی تعداد کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے۔ ملیریا اور ڈینگی دونوں مچھر کے کاٹنے سے پھیلتے ہیںلیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ڈینگی صاف پانی میں ہونے والے مچھر سے پھیلتا ہے اور اس مچھر کی افزائش اکثر گھروں میں ہی ہوتی ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر بھی ہر فرد اپنے گھر پر کرسکتاہے عام طور پر یہ مشورہ دیا جاتاہے کہ گھروںمیں پانی ذخیرہ کرنے کے برتن ڈھانپ کر رکھے جائیں تو ڈینگی پھیلنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔
Load/Hide Comments