پریشان کن صورتحال

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پارلیمان بدقسمتی سے عوام کی خدمت کم اور طاقتور کی خدمت زیادہ کر رہی ہے۔ حکومت اگر وہ غلط کام کیلئے بضد رہے تو جے یو آئی ان کے راستے میں رکاوٹ بنے گی۔دریں اثناء پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان ہے کہ اب جے یو آئی کی حمایت کے بغیر ہی قانون سازی کا عمل مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے اخراج اور سپیکر قومی اسمبلی کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اقدام سے محولہ امر کی تیاری نظر آتی ہے البتہ ایک اہم سوال عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور احکامات پر عملدرآمد اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اس صورتحال پر بار بار کے اجلاسوں کے بعد کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کا ہے ایسے میں یہ صرف اسمبلی میں عددی اکثریت ہی کا شامل معاملہ نہیں رہ جاتا بلکہ آئینی اور قانونی پیچیدگی اور ان پر عملدرآمد بھی بڑے سوالات کا اور پیچیدگیوں کا باعث ہے ایسے میں ایک اور عدالتی اور آئینی جنگ کے نقارے بجتے سنائی دے رہے ہیں جس سے بچنے کے لئے ہی حکومت آئینی عدالت کے قیام پر بضد ہے نیز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈی ننس اور چیف جسٹس کی جانب سے آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد ایک سینئر جسٹس کو تین رکنی ججز کمیٹی سے باہر کرنے کا ہے یہ سارا ایسا آئینی اور قانونی عمل ہے جس میں نیت سے لے کر منصوبہ بندی تک تقریباً سب کچھ واضح ہے اس صورتحال سے ملک کی سیاسی فضا جمہوریت اور آئین کے ساتھ ساتھ قانون کی پاسداری اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا وہ سوال اٹھ رہا ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں سیاستدانوں کے مطیع ہونے مجبوریوں اور مصلحتوں کا شکار ہونے کا رویہ ترک کئے بغیر یکے بعد دیگرے آیئنی اور قانونی بحران پیدا کرنے اور اس میں گھر نے کی مشکل سے نجات نہیں ملے گی قرائن سے واضح ہے کہ منصوبہ سازوں کی تیاری اور پلان بی مکمل ہے اور وہ جو ٹھان چکے ہیں وہ کر گزریں گے جس سے ملکی سیاست و جمہوریت یہاں تک کہ اعلیٰ عدالتیں بھی مذاق بننے کا خطرہ ہے یہ سیاستدانوں کے عقل و دانش کا امتحان اس لئے نہیں کہ صورتحال سمجھنے میں ان کو دشواری ہو گی ملک و قوم آئین و دستور کی پابندی کا امتحان ضرور ہے کہ وہ اس وقت کس طرف کھڑے ہوتے ہیں اور استقامت کے ساتھ آئین و قانون اور جمہوریت کا دفاع کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  با اختیار بنانے اور پرکاٹنے کا حاصل؟