جامعہ پشاور کا قیام پاکستان بننے کے بعد عمل میں آیا تھا یہ پاکستان بننے کے بعد پہلی یونیورسٹی ہے جس کا قیام عمل میں لایا گیا ۔اس یونیورسٹی نے اس خطے کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور اس کے بطن سے دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں نے جنم لیا ۔یہ کیمپس پشاور شہر کا حصہ ہے اس کے اطراف میں چاروں طرف پشاور ہے ۔یہ بارہ سو ایکڑ پر پھیلا کیمپس جس پر اب پشاور یونیورسٹی کے علاوہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی ، انجینئرنگ یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی ، فارسٹ کالج ، خیبر میڈیکل کالج، خیبر کالج اف ڈنٹسیسری ،ارنم ہسپتال واقع ہیں ۔خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور پی سی ایس آئی آر بھی اس یونیورسٹی کے بنائے ہوئے ہیں ۔کیمپس کے سامنے روڈ کے دوسری طرف یونیورسٹی کالج فار بوائز اور یونیورسٹی پبلک سکول بھی ہے ۔اس کیمپس پر اب لگ بھگ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ رہائش پذیر ہیں جن میں سے نوے فیصد تعداد علم حاصل کرنے والوں کی ہے جو صوبے اور ملک بھر سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ اس کیمپس پر غیر ملکی طلبا کی ایک کثیر تعداد بھی رہائش پذیر ہے جو مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ۔ یونیورسٹی کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اس کی تعمیر و ترقی اور خوبصورتی میں اس سے پہلے پشاور شہر کے انتظامیہ نے کبھی بھی کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی اس بڑے کیمپس کو اپنے کسی ترقیاتی کام میں حصہ دیا ۔تاریخ میں پہلی مرتبہ کمشنر پشاور نے پشاور شہر کے خوبصورتی اور سہولیات کے لیے جو پروگرام شروع کیا ہے جسے پشاور آپ لفٹ پروگرام کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے دوسرے فیز میں پشاور یونیورسٹی کو بھی شامل کیا گیاہے ۔ اس پروگرام کے تحت پشاور یونیورسٹی کی سڑکوں کی بحالی ہورہی ہے ۔ روڈ نمبر ٢پر طلبہ و طالبات کی سہولت کے لیے جگہ جگہ ریسٹ رومز بنائے جارہے ہیں یعنی اب ایک ہی روڈ پر تین جگہ طلبا WC کی سہولت استعمال کرسکیں گے یہ کام اگرچہ برسوں قبل ہوجانا چاہئیے تھا مگر ہمارے ہاں صفائی اور سہولت کا کلچر نہ ہمارے ذہنوں میں پنپ رہا ہے اور نہ ہی ہم اسے زمین پر قابل عمل بنا رہے ہیں اس لیے جب ہم مہذب دنیا میں جاتے ہیں تو ہمیں ان پر رشک آتا ہے ۔اب کمشنر پشاور کے اس ایک بڑے اقدام سے ہم بھی دنیا کے ہم پلہ آجائیں گے جہاں ہمارے بچے بھی ان سہولیات کا استعمال کریں گے جو یورپ اور دیگر ممالک ڈیڑھ دو سو سال سے کر رہے ہیں ۔ روڈ نمبر2کے فٹ پاتھ کو کشادہ کیا گیا ہے ۔اور اس پر سو فٹ کے فاصلے پر بیٹھنے کے لیے بینچ اور ساتھ ڈس بین نصب کیے گئے ہیں ۔روڈ کے ساتھ سبزہ زاروں پر خوبصورت کینوپی لگائے جارہے ہیں جس کے نیچے دھوپ اور بارش میں طلبہ اور طالبات بیٹھ سکیں گے ۔یونیورسٹی کیمپس پر کہیں بھی کوئی سہولیات والی پارکنگ دستیاب نہیں تھی ۔ خیبر میڈیکل کالج کے گیٹ کے سامنے ایک وسیع کار پارک تعمیر کیا گیا ہے جس پر ابھی مزید کام ہونا ہے ۔ ا س سے یونیورسٹی میں ٹریفک کو قابو میں رکھنے اور گاڑیوں کو حفاظت سے رکھنے کا انتظام ہوگیا ہے ۔ اگر اس طرح کے دو کار پارک اگر اور بنائے جائیں تو اس سے یونیورسٹی کے اندر بے ہنگم روڈ کار پارکنگ سے نجات مل جائے گی ۔روڈ نمبر3 جس پر آئی ایم ایس اور دیگر تعلیمی شعبے ہیں اور ڈینٹل کالج اور کامرس کالج بھی اسی روڈ پر ہے اس کی توسیع کی گئی ہے اور روڈکے ساتھ جو گندہ نالہ تھا اس کو کور کرکے اس کے اوپر فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں اگرچہ یہ کام ابھی مکمل نہیںہوا مگر اس کام سے اس روڈ پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کو بہت زیادہ سہولت میسر آئے گی ۔ کمشنر پشاور کے یہ اقدامات بہت زیادہ دور رس نتائج کے حامل ہوں گے اس لیے کہ سالانہ ہزاروں طلبا صوبے اور ملک کے مختلف حصوں سے یہاں سیکھنے اور پڑھنے کے غرض سے آتے ہیں ۔ سیکھنے کا عمل صرف کلاس روم اور کتاب تک محدود نہیں ہوتا ۔دنیا کی یونیورسٹیاں اس مقصد کے لیے بچوں کو اپنے کیمپس پر ایسا ماحول بنا کر دیتے ہیں جس میںوہ چار برس رہ کر زندگی گزارنے اور معاشرتی و تمدنی خوبصورت کو اپنے اندر جذب کرکے اپنے اپنے علاقوں کو لوٹتے ہیں اور اس ماحول کو جو انہوں نے یونیورسٹی کیمپس پر دیکھا ہوتا ہے اس کو اپنے علاقوں اور گھروں میں لانے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ برسوں سے یونیورسٹی کیمپس کی حالت ایسے نہیں تھی کہ طلبا اس سے کچھ سیکھتے اور ان کے ذہن میں ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے ، رہن سہن اور سہولیات کا کوئی خاکہ بیٹھتا۔یونیورسٹیوں کی مالی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہ نے اس مسئلہ کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے ۔ اس لیے کہ یونیورسٹی میں ترقیاتی کاموںاور خوبصورتی کے لیے تو چھوڑیں ہر ماہ تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہوتے ۔ جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی خوبصورتی ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ دوسری طرف یونیورسٹی میں اس کام پر مامور افرادی قوت میں بہت زیادہ کمی ہوگئی ہے ۔ ایک ساتھ ان یونیورسٹیوں سے ہزاروں لوگوںکو جو اس کام پر مامور تھے نکالا گیا ۔اور گزشتہ دس برسوں میں جو ملازمین ریٹائرڈ ہوئے ان کی جگہ کسی کو بھرتی نہیں کیا گیا جس سے عملی طور وہ انتظام جو کیا جاسکتا تھا وہ ممکن نہیں رہا ۔ ہر عمارت اور جگہ کو فعال اور بحال رکھنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے گزشتہ کچھ برسوں سے وہ وسائل بھی یونیورسٹیوں کو دستیاب نہیں ہیں اس وجہ سے بھی مشکلات ہیں ۔ لیکن یونیورسٹیوں پر آئے اس بدترین دور میں کمشنر پشاور کا یونیورسٹی کی خوبصورتی اور سہولیات کی بحالی کے لیے اٹھایا گیااقدام کسی نعمت سے کم نہیں ہے ان کاموں سے یونیورسٹی کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے اور یونیورسٹی میں آنے والے اس تبدیلی کو محسوس کرکے یقیناً یہ سوچیں گے کہ انگریزوں کے دور کے بعد پشاور میں بھی کوئی کمشنر آیا تھا جس نے اس مادر علمی کی طرف توجہ دی ۔تاریخ یاد رکھتی ہے ۔ لیڈی ریڈنگ ، لیڈی ولڈینگ ۔گنگا رام ،بولٹن وغیرہ کو تاریخ نے اپنے صفحات میں اور لوگوں نے اپنے دل میں آج تک صرف اس لیے محفوظ کیا ہے کہ انہوں نے اس دور سے آگے کا سوچا اور ایسے کام کیے جن سے نسلوں نے فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں ۔ کمشنر پشاور نے بھی یونیورسٹی کیمپس پر یہ کام کروا کر ان کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے ۔ پچاس برس بعد بھی جب طالب علم ان سہولیات کا استعمال کریں گے تو وہ سوچیں گے کہ ہمارے بزرگوں میں کچھ لوگ تھے جو وقت سے آگے کا سوچتے تھے ۔ پشاور اپ لفٹ پروگرام سے پشاور شہر میں کافی اچھے کام ہوئے ہیں اس تسلسل کو جاری رکھنا ہوگا اس لیے کہ بڑے شہروں میں سہولیات اور خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں دنیا کی حکومتیں مسلسل خرچہ کرتی ہیں ۔ لاہور شہر کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں سہولیات کی فراہمی اور شہر کی خوبصورتی پر مسلسل توجہ دی جارہی ہے اس لیے لاہور خوبصورت ہے جبکہ کراچی پر اس کے مقابلے میں اس طرح توجہ نہیں دی جارہی اس لیے وہاں خوبصورتی اور بڑے شہروں کی ترقی نظر نہیں آرہی ۔ پشاور بھی اب بہت بڑا شہر بن گیا ہے اور جس تیزی کے ساتھ اس کے اطراف میں شہر پھیل رہا ہے اس سے یہ بات تو عیاں ہے کہ یہ شہر بھی کراچی اور لاہور کی طرح کروڑ کی آبادی والا شہر بن جائے گا ۔کمشنر پشاور کا یہ یہی ویژن رہا تو یہ شہر ترقی بھی کرے گا اور اس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ ان کے بعد آنے والے بھی اس تسلسل کو اسی طرح برقرا رکھیں گے ۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments