خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

فرق جان کے جیو ، قوم ایسی ہوتی ہے ، ہماری جیسی نہیں کہ غیر ملکی سفارتکار ہمارے قومی ترانے کی بے حرمتی کریں اور وزارت خارجہ تو اس پر احتجاج ریکارڈ کرائے جبکہ خیبر پختونخوا کے ایک مشیر الٹا سفارکاروں کے منہ میں اپنی زبان رکھتے ہوئے انہیں اس ”حرکت”کی تاویل سکھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی ہی قومی توہین کے راستے دکھاتا پھرے پشاور میں ایک تقریب کے دوران پاکستانی ترانے کی بے حرمتی کا جواز”موسیقی” میں ڈھونڈا گیا جبکہ ایران کے دارالحکومت تہران میں بھی وہاں ا فغان سفارتکار کی جانب سے بعینہ ایسی ہی غیر سفارتی حرکت کرنے اور وہاں ایران کے ترانے کا احترام نہ کرنے پر حکومت ایران نے شدید احتجاج کیا تو افغان حکومت کے حکام نے معافی مانگ کر جان چھڑائی لیکن پاکستانی ترانے کی بے حرمتی پر تادم تحریر افغان حکام کی جانب سے کوئی معذرت یا معافی سامنے نہیں آئی، جویقینا قابل تشویش امر ہے مگر وہ جو پشتو زبان میں کہتے ہیں کہ ”یہ کیوں اور کیسے ہواتو جواب دیا جاتا ہے کہ د رونڑو بائیگانو دلاسہ”یعنی یہ سب کچھ بھائی بندوں کی وجہ سے ہوا ہے یہاں بھی صورتحال بالکل ایسی ہی تھی کہ اگر ایک اور پشتو ضرب المثل کے مطابق کلہاڑی کو دستہ درخت فراہم نہ کرتا تو درخت کو کاٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی نوبت نہ آتی ، یعنی اس واقعے کے بعد ابھی افغان سفارتکار کسی وجہ جواز کوڈھونڈ نہیں پائے تھے کہ ہمارے اپنے ہی” بھائی بند” نے یہ کہہ کر ان کی مشکل آسان کر دی کہ سفارتکار کی اس حرکت پر جلدبازی میں کوئی موقف اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ انہیں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے دیا جائے(مفہوم) تاہم اب جو ایران کے اسی نوعیت کے واقعے کے بعد وہاں پر افغان حکام نے ایرانی احتجاج پر معذرت کرلی ہے تو وہاں پر تو موسیقی کو بہانہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی دراصل قومیں ایسی ہوتی ہیں جواپنی توہین پر چپ نہیں رہتیں نہ ہی احتجاج کے دوران اپنا لہجہ معذرت خواہانہ رکھتی ہیں ہماے ہاں احتجاج تو کیا گیا مگر ”لہجے کی نرمی” کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ محولہ سفارتکار کو جس کے بارے میں یہ خبریں بھی آئی کہ وہ کچھ عرصہ پہلے نہ صرف یو این ایچ سی آر سے اپنے اور اپنے خاندان کی واپسی کے حوالے سے مقررہ ریٹ کے مطابق ” ڈالر ” اینٹھ کر واپسی کی راہ اختیار کر چکا تھا دوبارہ کس طرح پاکستان آیا جبکہ اس وقت دستیاب اطلاعات کے مطابق پاکستان میں رہائش کے کاغذات ، ویزہ وغیرہ بھی نہیں ہے مگر وہ ایک سفارتکار کے طور پرخدمات انجام دے رہا ہے اور اس کی اجازت کس نے دی؟ ایسی شخصیات کو عالمی سطح پر سفارتکاری کے منافی اقدامات پر جہاں وہ تعینات ہوتے یں میزبان ممالک میں سفارتکاری کی زبان میں ”ناپسندیدہ شخصیت” قرار دے کر واپسی کی راہ دکھا دی جاتی ہے ، اس قسم کی خبریں ا کثر ممالک سے آتی رہتی ہیں جہاں کسی دوسرے ملک کے سفارتی عملے کو میزبان ملک کے اقدار یا مفادات کے خلاف سرگرمیوں پر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا جاتا ہے جبکہ ایران کے واقعے کے بعد ہماری وزارت خارجہ چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے گم سم بیٹھی ہے ۔بقول ظریف لکھنوی
اے مرغ سحر ککڑوں کوں بول کہیں جلدی
تو بھی شب فرقت میں گونگا نظر آتا ہے
ان دنوں ملک کی سیاست جس قسم کی صورتحال سے دو چار ہے اس پر بلاشبہ انتشار ی سیاست کا ٹائٹل چسپاں کیا جا سکتا ہے اگرچہ وزیر اعظم نے بھی اپنے تازہ بیان میں ”انتشاری سیاست” کو مسترد کرنے کی بات کی ہے لیکن دیکھنا پڑے گا کہ اس صورتحال کی ذمہ داری کیا کسی ایک طبقے یا جماعت یا شخصیت پر عاید کی جاسکتی ہے یا پھر اس ”سیاسی حمام” میں سب ہی یکساں طور پر فطری لباس میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں دراصل ایک دوسرے کے طعن و تشیع کے تیروں سے چھلنی کرکے مبارزت کی دعوت دینے سے کیا اصولی اور باہمی احترام پر مبنی پرامن سیاست جنم لے سکتی ہے؟ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو ”جھوٹ” کی بنیاد پر کی جانے والی پروپیگنڈیائی سیاست ہی نے عذاب بو کر نفرت بھری سیاست کو فروغ دے رکھا ہے اس میں ”گوئیلز” جیسے کردار کے حامیوں نے مزید الجھائو پیدا کر رکھا ہے اور جس کو بھی جھوٹ ، مکر اور فریب کے خنجر کا کاری وار لگتا ہے تو وہ حیرت سے پکار اٹھتا ہے ”یو ٹو بروٹس؟” اگرچہ اس ماحول میں بھی ایسے لوگوںکی کمی نہیں جواس کیفیت کے بالکل برعکس خیالات کے حامی ہیں اور ان واقعات پر تڑپ کر کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اب ذرا گزشتہ چند ہفتوں کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائیں تو وفاقی وزراء کرام اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے لے کر وزراء ، مشیران ، پارٹی رہنمائوں کے مابین نوک جھونک نے طعنہ گری ، دعوت سیاسی مبارزت سے آگے بڑھ کر روایتی خواتین کے کوسنوں جیسی شکل اختیار کر لی ہے جو گلی محلے کے اندر آمنے سامنے مکانوں کے دروازوں یا پھر کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر ایک دوسری کو جلی کٹی سناتے ہوئے گلی سے گزرنے والے ”حافظ جی” کو بھی ”شامل باجہ” کر لیتی ہیں اور پھر جب کچھ دیر بعد جھگڑے خاموشی کاوقفہ آتا ہے تو حافظ جی پوچھ لیتا ہے ، حافظ جی کھلووے کہ جاوے؟” اب دیکھنا یہ ہے کہ جس انتشاری سیاست کو ترک کرنے کی وزیر اعظم بات کر رہے ہیں اس کا خاتمہ بھی ہو گا یا نہیں؟ بقول ناطق دہلوی
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

مزید پڑھیں:  ایم ڈی کیٹ کاامتحان اور پاکستانی والدین