اداروں کی ساکھ کا سوال

وطن عزیز میں سیاسی بحران میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اداروں میں اختلاف رائے کی بجائے اختلافات اور اس کا کھلے عام اظہار جیسی صورتحال جب بھی بنی ہے اس کا نتیجہ کبھی بھی ملک و قوم کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا ہے ۔بدقسمتی سے اس وقت آئینی و قانونی اور دستوری اداروں میں بُعد کی جو صورتحال نظر آتی ہے یہ اختلاف رائے کی حد تک نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے نیز یہ درون خانہ اور ادارہ جاتی سطح کا بھی نہیں بلکہ میڈیا اور عوامی سطح پر اس کی پوری تفصیلات پوشیدہ نہیں صرف یہی نہیں بلکہ عدم تعاون اور معاملات کوناقابل واپسی کی لکیر تک بھی پہنچا دیا گیا ہے جس کے باعث اداروں کی فعالیت کادائرہ کار اور فرائض کی ادائیگی تک سبھی کچھ متاثرہ نظر آنے لگا ہے مشکل امر یہ ہے کہ صورتحال اس حد سے آگے بڑھ چکی ہے اور اداروں کے اختیارات و دائرہ کار اور یہاں تک کہ عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کا بھی سوال اٹھتا نظر آتا ہے۔ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود آئینی مسئلہ یہ ہے کہ لسٹ کا ملکی قانون کے مطابق فیصلہ ہونا ہے اور آئین پاکستان کے قوانین کی موجودگی میں اب یہ نشستیں کس طرح سے تقسیم ہونی ہیں اس کا جواب اس تفصیلی فیصلے میں نہیں ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آج بھی موجود ہے کہ اگر آپ آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر آئے ہیں تو الیکشن جیتنے کے بعد تین روز کے اندر آپ نے کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بننا ہوتا ہے اور یہ قانون کے تحت اب ناقابل واپسی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 51کہتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم قانون کے مطابق ہو گی اور صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے106کے قانون میں بھی یہی کہا گیا، صورتحال ویسی کی ویسی ہی ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ذرائع نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق الیکشن رول 94خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن رول94خلاف آئین اور غیر موثر ہے، رول94 الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل51اور106کے منافی ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن ذرائع نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے نے الیکشن ایکٹ کو غیر فعال بنا دیا ہے، الیکشن کمیشن اب کس قانون کے تحت کام کرے؟ ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر ناکارہ کردیا گیا ہے۔ان تمام عوامل کو اگر یکجا کر کے دیکھا جائے تو سوائے اس کے کہ خالص قانونی آئینی اور دستوری معاملات پر صرف اختلاف رائے اور اپنا تبصرہ شامل کرنے کی حد تک معاملہ نہیں بلکہ شائستگی کو بھی بالائے طاق رکھا گیا ہے جب ملکی ادارے ہی ایک دوسرے کو الزام دینے لگیں اور ایک دوسرے کے راہ کی رکاوٹیں ایک دوسرے کے دائرہ کار کو مشکوک بنا دیں بجائے اس کے کہ پیچیدہ معاملات سے حکمت اور بصیرت سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ صرف آئینی اور قانونی اختلافات کا سوال ہوتا تو بھی کسی کی نیت پر شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی یہاں تو اب باریاں لگتی نظر آتی ہیں یکے بعد دیگرے تضادات اور اس کے بڑھتے اثرات سے جس طرح ادارے سیاسی آلودگی کا شکار ہونے کا تاثر قائم کر رہے ہیں یہ خطرناک صورتحال ہے جس سے اداروں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور عوام کا ان پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے اس صورتحال کا ملکی سیاست اور نظام انصاف پر حالیہ اثرات ہی نہیں بلکہ جب بھی غلط راستہ چنا گیا تو آنے والی نسلوں کو اس کے اثرات بھگتنے پڑے ہیں کوشش ہونی چاہئے کہ اس تاثر کا خاتمہ ہو کہ ملکی اداروں میں سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی کیفیت ہے ہمارے تئیں اداروں کی اپنی حدود کی پاسداری کرنے اور اختلاف رائے کو ایک خاص حد تک رکھنے سے ہی یہ ممکن ہو سکے گا کہ اختلافات کی صورت محدود اور اصولی حد تک ہو اور ساکھ کا سوال پیدا نہ ہو۔ بہتر ہو گا کہ اس حوالے سے مختلف اداروں میں بعد کی جوکیفیت ہے اسے خلیج میں تبدیل ہونے نہ دیا جائے اور معاملات کو احسن طریقے سے طے کرنے کامل کر راستہ نکال کر اس بحران سے نکلا جائے اور قانون و آئین کی بالادستی بھی متاثر نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل ایران کشیدگی