آئی پی پیز کے حوالہ سے ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہحکومت کی جانب سے پانچ آئی پی پی کے مالکان سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بجلی کی خریداری کے معاہدے (پاور پرچیز ایگریمنٹ) منسوخ کر دیں اور بجلی دو اور ادائیگی لوکا نظام اختیار کریں بصورت دیگر نتائج کا سامنا کریں۔آئی پی پیز سے کس قسم کے معاہدے اور ان کو کس انداز کی ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں اور ان کو ادائیگیوں کے باعث عوام کوکس خوفناک حد تک بھگتنا پڑتا آیا ہے اس کے اعادے کی ضرورت نہیں حکومت کی بھی اب تک کی خاموشی کی وجوہات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں بہرحال خوش آئند عندیہ یہ دیا گیا ہے کہ حکومت اب شدید عوامی دبائو کے تحت چار کمپنیوں کو ادائیگی نہ کرنے کانوٹس جاری کردی ہے اس ضمن میں قانونی پوزیشن واضح نہیں اور نہ ہی اس امر کا کوئی تفصیلی علم ہے کہ ان کمپنیوں سے معاہدے کی شرائط کیا ہیں طرفہ تماشا یہ کہ حکومت ان شرائط سے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کو بھی آگاہ کرنے سے ہچکچاتی آئی ہے بنا بریں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے پاس ان چار کمپنیوں سے مزید معاملت نہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور محولہ کمپنیاں قانونی طور پر حکومتی اقدامات کی مزاحمت کے شاید قابل نہ ہوں یا پھر جتنا ان کو ادائیگی ہوچکی ہے وہ کافی سے زیادہ ہو بہرحال ہر دو صورتوں میں ان کمپنیوں کو مزید ادائیگی نہ کرنے سے صارفین کو معمولی ریلیف ملنے کی توقع ہے ہمارے تئیں درجنوں کمپنیوں میں سے محض چار سے معاملت کا اختتام کافی نہیں یہ بھی محض ایک خیال ہے کیونکہ ممکن ہے کہ محولہ کمپنیوں کے پاس مضبوط قانونی جواز ہو اور معاہدے کی رو سے حکومت اس طرح سے ان کو ادائیگیوں سے انکار نہیں کر سکتی بہرحال اس کے باوجود اسے بارش کا پہلا قطرہ قرار دینے کی خوش امیدی کا اظہار کیا جانا ہی بہتر ہوگا جس کے بعد یکے بعد دیگرے حکومت کو ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ ان کمپنیوں سے پیچھا چھڑانے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور ساتھ ہی شمسی توانائی کے متبادل اور سستے نظام میں اضافہ کے ساتھ زیرتکمیل ڈیمز کی تعمیر جلدمکمل کرکے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کی سعی میں تیزی لانے کی ضرورت ہو گی۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments