میرے لئے یہ بڑی تکلیف دہ صورتحال بن گئی ہے کہ اپنے ملک کے بارے میں جب بھی کچھ پڑھتی ہوں حالات سے آگاہی کی سعی کرتی ہوں یا پھر کسی سے بات چیت ہوتی ہے تو مثبت خال خال اور منفی قدم قدم پر اور اس قدر زیادہ کہ قدم قدم پر مایوسی ہی مایوسی جھلکتی ہے ان دنوں ملک میں قانون سازی اور عدالتی حوالے سے جو صورتحال بنی ہوئی ہے کیا کسی مہذب اور جمہوری ملک میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے شاید نہیں ہم نے کس قسم کی سیاست اور طرز حکومت کو جمہوریت کا نام دے دیا ہے بطور مسلمان جمہوریت ہمارا نظام ہی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہمارے مسائل کا حل جمہوریت میں ممکن ہے لیکن جب ہمارا نظام حکومت جمہوری کہلاتا ہی ہے تو کم از کم اس نظام کی چند ایک خوبیاں ہی اپنا لی جائیں ہم نے تو منفی ہی منفی کی قسم کھا رکھی ہے منفی سیاست منفی سوچ منفی اقدامات مثبت کے تو ہم شاید معنی ہی بھول گئے ہیں ان دنوں چونکہ کچھ تعلیمی داخلے ہوچکے ہیں کچھ ہو رہے ہیں اور کچھ ہونے والے ہیں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے مسابقتی امتحان بھی انہی دنوں ہی منعقد ہوئے گویا ایک تعلیمی سال کاآغاز ہے جس میں پیشہ ورانہ کالجوں سے لے کر مختلف جامعات میں متنوع مضامین میں اعلیٰ تعلیم کے لئے طلبہ نے جانا ہے میںنے کوشش بہت کی کہ مثبت پہلو ڈھونڈوں طلبہ کی حد تک تو مثبت کچھا ملا کہ ہمارے طالب علموں کی بڑی تعداد کو مکمل وظیفے کے ساتھ ملک سے باہر تعلیم کے بڑے مواقع ملے اور ہمارے طلبہ نے اپنی قابلیت سے اس کا حصول ممکن بنایا اور ثابت کیا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں لیکن ساتھ دکھ کا پہلو یہ بھی تھا کہ ہمارے جو جو ہر قابل ایک مرتبہ باہر جاتے ہیں کم ہی واپس آتے ہیں باقی وہیں بیرون ملک تعلیم مکمل کرکے روزگار حاصل کرکے شادی بھی وہیں کرکے وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں پہلے پہل بوڑھے ماں باپ اپنے بچوں کو واپس بلانے کے جتن بھی کرتے تھے مگر اب عالم یہ ہو گیا ہے کہ وہ ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ بچوں سے کسی نہ کسی طرح بیرون ملک نکلنے اور وہیں رہ جانے کی دعائیہ استدعا کرتے ہیں کہ ان کو اپنی فکر پر بچوں کے مستقبل کی فکر زیادہ ہو گئی ہے اس ملک کے معاشی و سیاسی و عدالتی و حکومتی غرض ہر قسم کے حالات پر نظر دوڑائیں تو کوئی مثبت اور حوصلہ افزاء صورتحال نظر نہیں آتی ملکی حالات ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا کی تصویر نظر آتے ہیں جس سے مایوس والدین کو بس اب یہی سوجھتی ہے کہ ان کو جو بھوگنا پڑے سو بھوگیں گے مگر ان کی اولاد کی زندگی پڑی ہے ان کا مستقبل کسی طرح محفوظ ہو جن کے پاس وسائل ہیں وہ تو آسانی سے نکل جاتے ہیں بلکہ نکل گئے ہیں جن کے پاس جمع پونجی ہے والدین وہ لٹانے سے دریغ نہیں کرتے جن کے پاس وہ بھی نہیں پلاٹ اور جائیداد ہے سو خدشات میں گھرے والدین وہ بھی بیچ کر بچوں کو کسی اچھے ملک نکلنے کا سامان کرتے ہیں یہاں تک کہ دیگر بچوں اور خود اپنے آپ کو محتاجی کے دروازے پرلاکھڑا کرنے کی قیمت پر بھی وہ اسے مہنگا سودا نہیں سمجھتے ظاہر ہے وہ سب بچوں کو نہیں کسی ایک بیٹے ہی کو بیرون ملک بھجوانے کا فیصلہ کرتے ہیں آگے ان کی قسمت کہ رقم اور مستقبل خدانخواستہ دائو پر لگے یا پھر سعاد ت مند بیٹا حصول تعلیم کے ساتھ کچھ کما کر گھر والوں کو بھی آسودہ کرنے کے جتن میں کامیابی حاصل کرے قانونی طور پر جانے والوں کو مشکلات کا سامنا تو بہرحال ضرور ہوتا ہے لیکن وہ جتن کرکے کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتے ہیں اور اپنے والدین و بہن بھائیوں کا سہارا اور ان کے آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ملک کو زرمبادلہ بھی آتا ہے یہ تو مثبت پہلو تھا منفی پہلویہ ہے کہ سب کے پاس چونکہ اتنے وسائل اور قانونی طور پر جانے کے راستے اور مواقع نہیں ہوتے اس لئے وہ بدقسمتی سے غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں جوبسا اوقات اپنی جان تک گنوانے کے ساتھ خاندان کو بھی مقروض اور بے گھر کرنے کا باعث جیسے واقعات کا پیش خیمہ بنتے ہیں یہ جو جو ہر قابل اور دانش کا ملک سے فرار ہے دیکھا جائے تو ایک حد تک تو درست مگر جب سبھی ایک ہی راہ اپنا لیں اور ہر کوئی ملک سے نکلنے کو مسئلے کا حل سمجھے تو پھر وطن عزیز کی خدمت اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں شہ دماغوں کے ملک سے چلے جانے کے باعث یہ ملک ایسے لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو نہ تو خود سمجھ دار اور قابلیت کے حامل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ملک کی بہتر خدمت کے جذبے کے حامل نکلتے ہیں لوگ سی ایس ایس پی ایم ایس کرنے والوں پربجا طور ظنز کرتے ہیں کہ یہ لوگ سمجھتے خود کو بڑا بیورو کریٹ ہیں کہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر یہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کس ادارے کی کارکردگی کو ان لوگوں نے اپنی قابلیت دکھا کر بہتر بنایا ہے کونسا حکومتی ادارہ منافع میں جا رہا ہے شاید کوئی بھی ادارہ نہیں ماضی میں مثالیں ملتی ہیں مگر اب نہیں اب جس سرکاری ادارے میں جائیں انحطاط ہی انحطاط کی کیفیت ہے بدعنوانی ، رشوت اختیارات کا ناجائز استعمال، سرکاری وسائل کا ضیاع غرض ہر طرف منفی ہی منفی کا وتیرہ اور مثالیں ملتی ہیں وجوہات تو بہت ہیں مگر ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ کیا دینی تعلیم کے ادارے اور کیا عصری تعلیم کے ادارے ہر دونوں میں اخلاقی تعلیم کا خاتمہ ہو گیا ہے جس معاشرے سے اخلاق جیسی قیمتی چیز کو واہمہ ا ور کمزوری گردان کر تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہو جس معاشرے سے رشوت کا اقدام انسانی تہذیب کی فطری پابندیوں ، رشتوں کاتقدس و احترام یہاں تک کہ مذہبی اور ا خلاقی رواداریاں بھی باقی نہ رہی ہوں پھر وہاں مثبت کی تلاش و توقع ہی عبث ہے مشکل امر یہ ہے کہ ہماری تعلیم بھی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکی آج کے دور میں دینی و عصری ہر دو تعلیمی اداروں میں رائج ماحول اور نصاب اچھا انسان تراشنے میں ناکامی کا شکار ہے مختلف اخلاقی ونفسانی جرائم کا جادو سر چڑھ بول رہا ہو وہاں امید کی کرن نظر نہ آنے کا خود بخود حقیقت بن جانا فطری امر ہے اصلاح معاشرہ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت سے غفلت خوف خدا سے روشناسی نہ ہوتو پھر معاشرے اس طرح منفی کرداروں کا مجموعہ بن جایا کرتے ہیں اور بس۔