سر کے بالوں کا کچھ حصہ کاٹنا کچھ چھوڑ دینا

سوال
عصر حاضر میں نوجوان طبقہ بال کچھ اس طرح رکھتا ہے کہ سر کے ایک حصہ کے بال کٹوا دیتے ہیں اور ایک حصہ بالکل بھی کٹواتے نہیں، کبھی آگے کی طرف کٹواتے ہیں اور پیچھے کی جانب چوڑ دیتے ہیں، یعنی کچھ حصہ کٹواتے ہیں اور کچھ نہیں کٹواتے ہیں، کیا اس طرح کٹوانا درست ہے یانہیں؟
جواب
سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع” کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں۔
البتہ سر کے بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ مردوں کے لیے بالوں کو کاندھے سے نیچے تک رکھنا، یعنی احادیث میں زلفوں کی جو مقدار ہے اس سے زیادہ رکھنا بھی درست نہیں ہے۔
مشکوۃ المصابیح کی روایت میں ہے :
’’حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری ومسلم ) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے ‘‘۔
اس حدیث کی شرح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :
’’نوویؒ کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں؛ کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کیے ہیں، اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں، لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے! جہاں تک ” لڑکے ” کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے، ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لیے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثنا کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہلِ کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لیے ہے ۔
راوی نے ” قزع ” کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے، اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں ) (زلف اور بالوں کی ) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو‘‘۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"يكره القزع، وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعاً مقدار ثلاثة أصابع، كذا في الغرائب”. (5/ 357)فقط واللہ اعلم
________________________________________
فتوی نمبر : 144102200357
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مزید پڑھیں:  کیا ٹوتھ برش سے مسواک کی سنت ادا ہوجائے گی؟