وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سیاحت ، ثقافت و آثار قدیمہ زاہد چن زیب کے اس دعوے کو کہاں تک قابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے کہ نشتر ہال کی آمدن کو فنکاروںکی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ عالمی بنک کے تعاون سے 17ملین روپے کی لاگت سے نشتر ہال کی تعمیر اور تزئین و آرائش منصوبے کی تکمیل کے بعد کلچر کمپلیکس کا افتتاح کر دیا گیا ہے جہاں ایک بار پھر ثقافتی سرگرمیوں کا افتتاح کر رہے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے نشتر ہال تعمیر کیا گیا ہے اس کو متعدد بار (مختلف حکومتوں کے دوران) تزئین و آرائش کے عمل سے گزارا گیا ہے چند برس پہلے اس کے سٹیج کو ڈراموں کے لئے جدید طرز پر گھومنے والے سٹیج سے بھی مزین کرنے پر کروڑوں کے اخراجات کئے گئے مگر تکمیل کے بعد یہ سٹیج کسی جانب”گھوم” نہیں سکا جبکہ ٹھیکیدار ”ملی بھگت” سے لاکھوں روپے لے کر چلتا بنا اس حوالے سے نہ تو کوئی انکوائری ہوئی نہ ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لایا گیا اس کے علاوہ ہر سال 23مارچ کو اسلام آباد میں افواج پاکستان کے پریڈ کے موقع پر صوبوں کی جانب سے جو ثقافتی طائفہ بھیجا جاتا ہے ، اس میں مبینہ طور پر ہر سال لاکھوں روپے کا خوردبردکیا جاتا رہا ہے ، اور معمولی کلرکوں کے پاس بھی شاندار گاڑیاں آتی رہی ہیں لیکن جب ”حصہ بہ قدر جثہ” اوپر سے نیچے تک پہنچ رہا ہو تو کون پوچھتا ہے اسی طرح گزشتہ برسوں کے دوران فنکاروں ، قلم کاروں اور ہنر مندوں کو انڈیمنٹی فنڈ کے حوالے سے دو بارتقسیم کرکے ان کی مالی مدد کی گئی مگر اس اچھے اقدام کو خود ان ہنروروں نے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اسے ناکام بناتے ہوئے اس کے خلاف نہ صرف عدالت سے رجوع کیا بلکہ احتساب کے ایک اہم ادارے کے ذریعے بھی اس کی تحقیقات کرائیں جس کے بعد صوبائی حکومت نے فنکاروں کی بہبود کے اس پروگرام کو ہی ترک کردیا حالانکہ ہمارے صوبے کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ میں ایسے ہی منصوبے کامیابی سے چل رہے ہیں وہاں بھی اکا دکا اعتراضات ضرور سامنے آتے ہیں مگر جو بدنظمی فنکاروں کی صفوں میں یہاں نظر آتی ہے ایسی صورتحال دوسرے صوبوں میں نہیں ہے ، بہرحال دیکھتے ہیں کہ اب کی بار محکمہ ثقافت کیا طریقہ اختیار کرتا ہے جس سے فنکاروں کی بہبود کامقصد حاصل کیا جا سکے گا؟۔