خیبر پختونخواجہاںایک جانب حکومت بدعنوانی کی روک تھام کے لئے خصوصی کمیٹی سازی اور عوامی شکایات سے آگاہی کے لئے پورٹل کے قیام کے اقدامات میں مصروف ہیں وہاں دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواکی ہدایات پرپی ڈی اے کی جانب سے رنگ روڈ سے تجاوزات کو ہٹانے کی مہم میں حکومتی اراکین اسمبلی تجاوزات کو بچانے کے لئے میدان میں کود گئے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی حیثیت سے سرکاری حکام سے ملاقاتیں اور عوامی مفاد کے تحفظ کی سعی کی مخالفت نہیں کی جا سکتی کوئی معقول وجہ پاس ہو تو سرکاری عہدیداروں کی جانب سے عدم تعاون کی اولاً گنجائش ہی نہیں بہرحال عدم تعاون پر اعلیٰ حکام اور متعلقہ محکمے کے وزیر ااور وزیر اعلیٰ تک آسان رسائی کے باعث شکایت اور ازالہ شکایت ان کے لئے کوئی مشکل نہیں استحقاق کمیٹی سے بھی بلاوجہ عدم تعاون کا مظاہرہ کرنے والوں کے احتساب کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے لیکن ان تمام قانونی طور طریقوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو موقع پر کام سے روکنا اور سرکاری افسران کے دفاتر پر یلغار اور بعض اطلاعات کے مطابق ہوائی فائرنگ سراسر قانون کی خلاف ورزی اور ناقابل قبول امر ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ سرکاری عہدیداروں کو جب تک حکومت اور عوامی نمائندوں کی مکمل اشیر واد حاصل نہ ہو گی وہ اس طرح کے کاموں میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے بجائے ان کی سرپرستی کے اگر عوامی نمائندے ہی تجاوزات مافیا کی سرپرستی کرنے لگیں توقدم قدر پر تجاوزات کاشکار یہ شہر کبھی بھی تجاوزات سے پاک نہیں ہوسکتا بلکہ تجاوزات مافیا مزید شیر بن کر تجاوزات میں مزید تیزی لائے گی۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں غیر قانونی رکشوں کے خلاف مہم ہو یا بی آر ٹی روٹ پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کی بندش کامسئلہ ہتھ ریڑھی بازاروں سے ہٹانے کا اقدام ہو سیاستدانوں نے قانون اور سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی کی بجائے خلاف قانون سرگرمیوں اور مافیا ہی کا ساتھ دیا ہے سوائے ایک مرتبہ کے جب سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ر) افتخار حسین شاہ مرحوم صوبے کے گورنر تھے اور ملک محمد سعد شہید سی ڈی ایم ڈی کے ڈی جی تھے ان دونوں کی مساعی میں صوبائی دارالحکومت میں برسوں کے تجاوزات اور گلیوں و سڑکوں کی کشادگی و بحالی کے جو اقدامات ہوئے شہر اور اس کے مکین آج بھی ان کو نہ صرف اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں بلکہ یہ شہر بھی ان کی ممنوں احسان رہے گی حکومت صوبائی دارالحکومت پشاور میں جس انداز کی مہم سابق گورنر افتخار حسین شاہ مرحوم او ملک محمد سعد شہید کی نگرانی میں چلائی گئی اس قابل تقلید مثال کی پیروی کرے تو یقینا سرخرو ہو گی ۔ رنگ روڈ کے ارد گرد کے سرکاری نقشے کے مطابق 200 فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی مگر اب دیکھا جائے تو سروس روڈ بھی گھری ہوئی ہے جسے بچانے کے لئے میدان میں کودنے والوں کے پیش نظر قانون کا نفاذ اور تجاوزات کاخاتمہ نہیں بلکہ اس ووٹ بنک کا تحفظ ہے جو اپنی سرگرمیوں کے تحفظ کے لئے سیاسی عناصر کے دامن میں سر چھپانے کی عادی ہے سرکاری اداروں کی غفلت اور ملی بھگت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں اس لئے کہ سرکاری اہلکار بھی چشم پوشی سے کام لینے کے عادی ہیں ملی بھگت اور بدعنوانی کی بھی پوری پوری گنجائش موجود ہے اور پانی جب سر سے اونچا ہو جائے تو ان کو آپریشن یاد آجاتا ہے پی ڈی اے حکام کی حیات آباد کو تجاوزات سے پاک کرنے کا دعویٰ درست نہیں حیات آباد کی مارکیٹیں اور مساجد کا بیرونی حصہ تجاوزات سے لبا لب ہے فیز چھ میں دو معروف سکولوں کے سامنے اور لیڈیز پارک کے پاس دو پہر ہی سے جو بازار لگتا ہے گویا وہ شہر میں فردوس پھاٹک ہو اور پوچھنے والا کوئی نہ ہو ۔ تو شہری آخر کس سے فریاد کریں ڈی جی پی ڈی اے جہاں رنگ روڈ کو واگزار کرانے کے لئے پرعزم ہیں وہاں ان کو محولہ شہری مسئلے کے حل میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے شہر میں ایک جگہ تجاوزات سے چشم پوشی اختیار کی جائے تو یہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے کے مصداق ہوگا بنا بریں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی دبائو اور سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر سرکاری اہلکاروں کو آپریشن کلین اپ کا مکمل اختیار دے کر ان کی سرپرستی کی جائے تاکہ شہر کو تجاوزات سے پاک کیا جا سکے جو حکومتی عناصر اس طرح کی سرگرمیوں کے راہ میں مزاحم ہوتے ہیں ان کا یہ اقدام ذاتی مفاد اور چند ایک عناصر کی سرپرستی کے باعث عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کا باعث بن رہاہے اور حکومت پر تنقید ہوتی ہے بنا بریں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوااپنے احکامات پر عوام کے وسیع تر مفاد میں ہر قیمت پر عملدرآمد کروائیںایسا کرکے ہی وہ محولہ شخصیات کی طرح شہریوں کی اچھی یادوں میں رہ سکیں گے وگر نہ اس شہر پشاو ر کی نمائندگی کے دعویداروں نے خود اس شہر کے ساتھ جو ظلم ناروا رکھا وہ بھی انہی میں شمار ہوں گے یقینا وزیر اعلیٰ موخرالذکر میں کبھی بھی اپنا شمار کرنا نہیں چاہیں گے۔