آج کے بھارت کی صورت حال پر چراغ تلے اندھیرا کا محاورہ صادق آتا ہے۔بھارت کی ترقی خوش مزاجی ،خوش حالی ،سیکولرازم ،سب سے بڑی جمہوریت ،ملٹی کلچرل اور پلورل ازم کا چراغ امریکا سے آسٹریلیا تک اپنی ضوفشانی دکھا رہا ہے مگر اس چرغ کے دائیں بائیں کے تمام ملک اس روشنی سے منور نہیں ہو رہے بلکہ وہ اس روشنی کااندھیر ا سمجھنے پر مجبور ہیں۔ایک کے بعد دوسرا ہمسایہ موقع ملتے ہی بھارت کے دائرے سے باہر چھلانگ لگا لیتا ہے۔سری لنکا کے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج نے خطے میں واحد ملک کیساتھ بہتر تعلقات کی بھارتی امید بھی ختم کر دی۔سر ی لنکا کے صدارتی انتخاب میں کمونسٹ راہنما انوراکمارا دیسا نائیکے نے کامیابی حاصل کی۔انورا کمارا دیسا نائیکے کا تعلق کمونسٹ نظریات کی حامل جماعت جنتا ویمکتا پیرامونا یعنی جے وی پی سے ہے۔بھارت کے حوالے سے یہ جماعت اپنا ایک ماضی رکھتی ہے۔نومنتخب سری لنکن صدر نے پارلیمنٹ تو ڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور ظاہر ہے نئے انتخابی نتائج اسی عوامی رجحان کے تحت ہوں گے اور یوں اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہوجائیگی۔نومنتخب سری لنکن صدر کو چین کا حامی سمجھا جا تا ہے۔گوکہ نریندرمودی نے انہیں مبارکباد کا روایتی پیغام بھیج دیا اور اس کا جواب بھی روایتی انداز میں ہی آیا مگر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس انتخاب سے بھارت کے متفکر ہونے کا پہلو عیاں بھی ہے اور اپنا جواز بھی رکھتا ہے۔سری لنکا کی جے وی پارٹی کے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو اس جماعت کی قیادت ہر دور میں بھارت کے بارے میں دوٹوک اور سخت خیالات کا اظہار کرتی ہے۔1987میں جب سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی تحریک بہت زوروں پر تھی تو سری لنکن صدر جے وردھنے اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان قیام امن کا ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔جے وی پارٹی نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس کی کھلی مخالفت کا راستہ اپنایا تھا۔بعدمیں جب سری لنکن حکومت نے تامل باغیوں کو سختی سے کچلنا شروع کیا تھا تو سری لنکا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ عالمی اورمقامی سطح پر ہونے لگا تھا۔حقیقت میںا س مطالبے کے پیچھے بھارت کی کی خواہشات تھیں۔جے وی پی نے اس مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھاکہ سری لنکا میں جنگی جرائم کی تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں۔
1990میں اس جماعت کے بانی صدر روہانا وجے ویرا نے کھلے لفظوں میں بھارت پر توسیع پسندانہ عزائم رکھنے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت سری لنکا کے مفادات کیخلاف کام کر رہا ہے۔ان کا اشارہ تامل علیحدگی پسندوں کی بھارت کی طرف سے مدد کی جانب ہی تھا۔اس طرح نومنتخب سری لنکن صدر کی جماعت کو بھارت مخالف جماعت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔اس انتخاب کی یہی بات اب بھارت کیلئے سوہانِ روح بنتی جا رہی ہے۔انورا دیسا نائیکے کو سری لنکا کا پہلا مارکسٹ صدر کہا جا رہا ہے۔ایک ایسے ملک میںجو پہلے ہی عالمی اور علاقائی کشمکش کے کراس فائر میں پھنساہوا ہے ،ٹھیٹھ کمونسٹ نظریات کے حامل صدر کا انتخاب حالات کی ایک نئی جہت کا پتا دے رہا ہے۔سری لنکا جنوبی ایشیاء کا ایسا ملک ہے جو دو علاقائی ہمسایوں بھارت اور چین کی کھینچا تانی کی زد میں ہے۔اس کشمکش کے باعث سری لنکا ماضی میں خانہ جنگی کا شکار رہا اور اب وہ اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔حتیٰ کہ اسے معاشی طور پر دیوالیہ قرار دیا گیا ہے۔گویا کہ اس کی معیشت کی راکھ میں سے ایک نئی چنگاری تلاش کرنے کا مرحلہ درپیش ہے۔معاشی بدحالی کا ہی نتیجہ تھا کہ دوسال قبل سری لنکا کے عوام نے تنگ آکر حکمران طبقات بلکہ حکمران خاندانوں کے محلات کا رخ کیا تھا اور وزرا ء کو گاڑیوں سمیت نہر میں بہا دینے کے مناظرسامنے آئے تھے۔اس عوامی مزاحمت کے نتیجے میں صدرگوٹا بایا راجا پکسے کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔سری لنکا کے اس مالی بحران میں بھارتی دوڑا دوڑا ان کی مدد کو آیا تھا اور نریندرمودی نے چین کا مقابلہ کرنے کے سری لنکن حکومت کومالی امداد بھی دی تھی۔جس طرح پاکستان میں گوادر بندرگاہ عالمی اور علاقئی طاقتوں کے درمیان ایک کشمکش کا محور بنا دی گئے ہے اسی طرح سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ بھی عالمی اور علاقائی تنازعات کی زد میں ہے۔بھارت نے اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے اس بندرگاہ سے چین کو ہرممکن طریقے سے بے دخل کرنیکی کوشش کی۔بنگلہ دیش سے بری طرح نکالے جانے کے بعد بھارت کی امید سری لنکا کے صدارتی انتخاب سے وابستہ تھی۔گوکہ سری لنکا میں بھارت کو قبولیت حاصل نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھارت کا تاثر ایک ایسے ہمسائے کا ہے جو ان پر ”بڑے بھائی”کے روپ میں مسلط ہونے میں کوشاں ہے۔یہی وہ تاثر ہے جس نے جنوبی ایشیائی ملکوں میں اسے ایک ایک کرکے بھارت کو نکلنے پر مجبور کیا ہے۔
خطے میں بھارت کے دوطاقتور ہمسائے چین اور پاکستان دونوں بھارت کیساتھ کھلی کشمکش میں ہیں۔چین کیساتھ گلوان وادی اور پنگانگ جھیل کی کشیدگی کے باوجود بھارت کی تجارت چل رہی ہے مگر پاکستان کیساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع ہیں۔دونوں ملکو ں کیساتھ تعلقات کی مکمل نارملائزیشن کا امکان باقی نہیں۔نیپال میں ماونوازحکومت کے قیام کے بعد چین کیساتھ تعلقات مضبوط ہوئے اور اس کا مطلب بھارت سے تعلقات کا دائرہ سکڑنا تھا۔مالدیپ کا الیکشن بھی گوانڈیا کے نعرے کے تحت لڑا اور جیتا گیا اور جیتنے کے بعد صدر معیزو نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ بھارت کے فوجیوں کو گھر کی راہ دکھلا دی۔سری لنکا نے پہلے ہی بھارت کے ہاتھوں زخم کھائے ہیں اور اس کی بودھ اکثریتی آبادی بھارت کیساتھ فاصلہ بنائے رکھنے پر مائل رہی ہے۔اب بھارت کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔جنوبی ایشیاء میں بھارت کا واحد اتحادی بنگلہ دیش تھا۔بھارت حسینہ واجد حکومت کے ذریعے بنگلہ دیش کی فیصلہ سازی پر حاوی ہو چکا تھا۔بھارت بنگلہ دیش کی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش بھی کر رہا تھامگر بنگلہ دیشی عوام نے معاشی صورت حال پر آزادی اور اقتدار اعلیٰ کو ترجیح دیکر بھارت کو نکال باہر کرنے کا راستہ اختیا ر کیا۔انہیں اندازہ تھا کہ بھارت معاشی بہتری کے نام پر ان کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کو محدود کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور اس احساس نے بنگلہ دیش کے عوام کو مزاحمت پر آمادہ کیا۔یوں حسینہ واجد کیساتھ ہی بنگلہ دیش بھارت کے اثر رسوخ سے آزاد ہوگیا اور اب بنگلہ دیشی عوام اسے دوسری آزادی قرار دے رہے ہیں۔بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء میں بھارت کا آخری مورچہ تھا جس سے اسے پسپا ہوناپڑا اور اب سری لنکا میں بھارت کی امید کا چراغ جلنے سے پہلے ہی بجھ گیا۔سری لنکا میں چین نواز شخصیت اور جماعت کی کامیابی میں بھارت کیلئے تشویش کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کا ہر ہمسایہ اس نالاں اور بِدکتا کیوں ہے ؟اس کی وجہ بھارت کی بالادستی کاجنون ہے جو اس نے مہابھارت کے دیومالائی تصور سے کشید کیا ہے۔
Load/Hide Comments