صوبائی دارالحکومت پشاور میں منشیات کے عادی افراد اور بیروزگاری کے باعث چوری ورہزنی کی وارداتوں ہی میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ شہر میں ہر نظر آ نے والی کارامد چیز پر بھی بے دریغ ہاتھ صاف کرنے کا عمل تسلسل سے جاری ہے اور ستم یہ کہ ان عناصر کا ھاتھ روکنے والا کوئی نہیں چوری ورہزنی اور موبائل چھیننے کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اگرچہ اس طرح کے حالات سے عمومی طور پر واسطہ پڑ رہا ہے تاہم منشیات کے عادی افراد کی وارداتوں کی شرح واضح اور دن دیہاڑے ہونے کے ساتھ ساتھ مسلسل بھی ہے دن ہو یا رات کا کوئی پہر نشے کی خریداری کیلئے رقم کے بندوبست کی فکر میں یہ افراد اپنے اردگرد سے بے خبر سرکاری ونجی املاک کی چوری میں مگن دکھائی دیتے ہیں ٹریفک کی روانی کے دوران ہی سڑکوں سے کیٹ آ ئیز اکھیڑنے والے اگر کسی کو نظر نہیں آ تے تو وہ پولیس اور قانون نافذ کرنیوالوں کے اہلکار ہیں ان کا ہاتھ روکنا تو ہر شہری کا بھی فرض بنتا ہے بہت سے لوگ اس کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں مگر ان کا ہاتھ روکنا عام آ دمی کے بس کی بات نہیں یہ لوگ سمجھا نے یا سختی سے منع کرنے پر ماننے والے نہیں ان کو بس ایک ہی لت پوری کرنے کی دھن سوار رہتی ہے اور وہ اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں کمشنر پشاور نے منشیات کے عادی افراد کے علاج اور بحالی کا ایک احسن منصوبہ ضرور شروع کیا تھا حال ہی میں پولیس حکام نے بھی منشیات کی روک تھام کیلئے کاوشوں کا عندیہ دیا تھا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ماتحتوں نے صرف ایک دو دن ہی سرگرمی دکھائی کمشنر پشاور کی جانب سے مہم برائے بحالی بھی خاصے وسائل کے استعمال کے باوجود ناکام رہی ان عناصر کی روک تھام کیلئے جہاں دیگر اقدامات کی ضرورت ہے وہاں سب سے ضروری امر منشیات کی سپلائی کی بندش ہے جس کے حوالے سے مہم کو اگر خود حکومتی اداروں کی جانب سے ہی ناکامی سے دو چار کرنے کا کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا جب تک منشیات کی سپلائی لائن جاری ہے تب تک اس کے خریدار خود بخود ملتے رہیں گے پشاور میں منشیات کی سپلائی حیات آباد کے اردگرد سے ہورہی ہے ہزار خوانی پھندو روڈ کوہاٹ روڈ بڈھ بیر اور ورسک کی طرف سے غرض پشاور کے وہ حدود جو اطراف کے دیہاتوں سے متصل ہیں منشیات کی سپلائی لائن ہیں حیات آباد جیسے علاقے میں شاہ کس سے فیز سکس کے راستے ٹوٹی ہوئی چار دیواری کے راستے دن بھر کھلم کھلا منشیات کی سپلائی کی روک تھام کیلئے پولیس ذرا سی کاوش کی زحمت کرے اور سڑکوں پر ڈیرے ڈالے منشیات کے عادی افراد کو ہٹانے کی ذمہ داری نبھائے جبکہ حیات آباد ہی کے اچینی کی طرف سے بھی اگر نظر رکھی جائے نیز کارخانوں کے قریب منشیات کے اڈوں اور ارد گرد منڈلانے والے منشیات کے عادی افراد کیخلاف کارروائی کرے تو نہ صرف شہر کا ایک بڑا علاقہ منشیات سے پاک ہو سکتا ہے بلکہ شھر کے مرکزی علاقوں کو بھی منشیات کی سپلائی رک سکتی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں اور حکام اور بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کرتا دھرتا افراد کو یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا سڑکوں اور گلیوں پلوں کے نیچے جا بجا منشیات کے عادی افراد کی ٹولیاں کیا اس امر کا واضح ثبوت نہیں کہ ان افراد کو بآسانی منشیات مل رہی ہیں ظاہر ہے محنت کا کوئی کام نہ منشیات کے عادی افراد کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ان کو کام دینے پر تیار ہو گا ایسے میں چوری اور جو ھاتھ لگا کاٹ اور اکھاڑ کر بیچنا ہی ان کا دھندہ اور منشیات کی خریداری کا راستہ رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ شہر میں اب گٹر اور مین ہول کے ڈھکن سے لیکر سرکاری ونجی عمارتوں کے جنگلے کیٹ آ ئز بی آ ر ٹی سٹاپ کے بورڈ وکھمبے یہاں تک کہ یہ لوگ بجلی کے پول کے گرد کھدائی کرکے وہ بھی گر ا کر لیجا تے ہیں چھوٹی موٹی چوری بھی یہی عناصر کرتے ہیں پولیس کو سب علم ہے پولیس کو ان کی ٹولیاں بھی نظر آ تی ہیں منشیات کی سپلائی بھی چھپی بات نہیں اس کے باوجود ممانعت نہ ہو کارروائی نہ کی جائے تو پھر ان کی ظاہر ہے روک تھام کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا نے کی پولیس کی اس عمل سے متعلقہ سرکل کے افسران کی چشم پوشی ان کی ملی بھگت اور بدعنوانیوں پر دال ہے اسی طرح بالترتیب دیگر افسران اور آ ئی جی خیبرپختونخوا بھی بری الذمہ نہیں وزیر اعلیٰ اور خیبر پختونخوا کے حکمرانوں کو بس لنکا ڈھا نے کی پڑی ہے ان سے توتوقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس طرف بھی توجہ دیں۔