تمام تر کوششوں اور دعوؤں کے باوجود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کی لاہور کے جلسے اور ڈھائی گھنٹے کی مسافت راولپنڈی کے احتجاج میں شرکت میں ناکامی کے بعد گولی چلانے کے سخت بیان کو خفت مٹانے اور ناراض کارکنوں کی ناراضگی کم کرنے کی کوشش تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن وفاقی وزیر اطلاعات کے اسے نو مئی سے تشبیہ دینے کا بیان بھی بے وزن نہیں اگرچہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں کا محاورہ بھی ہے لیکن تحریک انصاف جیسی مقبول سیاسی جماعت کا گولیاں چلا نے کی دھمکیاں دے کر جو چہرہ سامنے لانے کی نادانستہ طور پر جو سعی کی گئی ہے اس سے بروقت رجوع ضروری ہے کیونکہ کچھ اس قسم کی غلطی کی سزا اس وقت پوری جماعت ہی نہیں صوبے کے عوام اور ملک بلواسطہ بھگت رہی ہے نو مئی کے واقعات کو ابتدائی طور پر جوشیلی کامیابی سے تعبیر کرنے کی غلطی کس قدر بھاری پڑ رہی ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں سیاست دانوں نے بھی اگر بندوق سے فیصلہ لینا شروع کر دیا تو پھر باقی کیا رہ جائے گا یہ درست ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا بیان تنگ آ مد بجنگ آ مد کے زمرے میں بالکل آ تا ہے باقاعدہ اجازت حاصل کرکے پر امن احتجاج کے حق کا استعمال نہ ہونے دینا بالکل بھی مناسب امر نہیں بلکہ ملکی قانون اور جمہوریت کی نفی ہے مگر اس کے باوجود بندوق اٹھا نے اور جرگہ کرکے اپنے فیصلے آ پ کرنے کے بیان کی کوئی گنجائش نہیں خیبرپختونخوا کے عوام پہلے ہی بندوق برداروں کے نرغے میں ہیں صوبہ دہشت گردی کا شکار ہی نہیں اس خطے کے لوگو کو شدت پسند گرداننے کا ایک عمل بھی جاری ہے ایسے میں اگر سیاسی جماعتیں بھی بندوق برداروں کی صف میں شامل ہوں تو صوبے کے عوام کے جمہوری حقوق کیلئے جدو جہد کون کرے گا ماضی میں نوے کی دہائی میں پنجاب اور مرکز کی کشیدگی زیادہ پرانی بات نہیں اس کے سیاست پر اثرات اور ملکی حالات پر اثرات دہرا نے کی ضرورت نہیں اس وقت پھر بھی سیاسی انتہا پسندی تھی اب دہشت گردی اپنی جگہ سیاسی کشیدگی اور سیاست دانوں کے رویئے بھی سیاسی انتہا پسندی کی آ خری حدوں کو چھو رہی ہیں ایسے میں اس طرح کے بیانات جلتی پر تیل ڈالنے کا سبب بن سکتی ہیں جن سے احتراز ہی ہوشمندی کا تقاضا ہے۔