ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ ہر وقت شکایت کرتے رہتے ہیں، افراد یا حالات کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں، حالانکہ ہم سب کے نہیں صرف اپنے ذمہ دار ہیں، شکایت نہ کرنے کی صورت میںہم نہ صرف شکایت کی پریشانی اور بے سکونی سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی اصلاح پر توجہ دے کر عنداللہ ماجور بھی ہو سکتے ہیں، ہمارے دین میں اخلاق حسنہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور ہم اپنی اصلاح کا آغاز اگر یہیں سے کریں تو ہمارے دیگر تمام معاملات میں بہتری کے بڑے قومی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں، اخلا ق دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت در حقیقت دین حقیقی کا مقصود ہے،اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو، بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ اتنی تاب ناک نہیں ہے اور اس کی وجہ ہماری انفرادی اور اجتماعی اخلاقی پستی ہے۔
ہمارے پیارے دین میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، ایک مسلمان کی اصل پہچان اس کے اخلاق سے ہے اور اگر اخلاق نہیں تو پھر کیسا مسلمان ، آقا نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں، (مسند احمد)، اسی طرح انس کا بیان ہے کہ رسول اللہ ۖ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے، (متفق علیہ)، قرآن مجید آقا کے اخلاق حسنہ کی شہادت ان الفاظ میں دیتا ہے کہ بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں، آقا سے جب نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں، (مسلم)، اس طرح جب پوچھا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ نے فرمایا کہ خدا خوفی اور حسن خلق، پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی تو فرمایا کہ منہ اور شرمگاہ (ترمذی)، اسی طرح آقا کا ارشاد گرامی ہے کہ مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں، قارئین کرام ہم اپنے اخلاق کی اصلاح کا آغاز دوسروں سے خندہ پیشانی سے مل کر اور سلام سے گفتگو کا آغاز کرکے کر سکتے ہیں، رسول اللہ ۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو، (ابوداؤد)، اسی طرح سلام سے آغازِ ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ اپنے درمیان سلام کو عام کرو، (مسلم)، اخلاق حسنہ کے ضمن میں نرم خوئی، متحمل مزاجی، بردباری، عفو و درگزر اور ایثار و قربانی بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں، آقا نے فرمایا کہ تمھارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے: بردباری اور وقار و سنجیدگی، (مسلم)، اور حدیث قدسی ہے کہ جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے، قارئین کرام اس حوالے سے ایک اور اہم معاملہ اُخوت اور باہمی خیر خواہی کا بھی ہے، آقا کا ارشادِ گرامی ہے کہ مسلمان، مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو قوت پہنچاتا ہے، پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا، (مسلم)، پھر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، کوئی شخص ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، (بخاری)، دین کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے آقا نے فرمایا کہ دین خیر خواہی ہے، (مسلم)، اسی طرح اگر ہم اپنے اخلاق بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ہیں صداقت ، دیانت و امانت اور وعدے کی پابندی بھی سیکھنا ہو گی، اس بارے میں آقا کا ارشادِ گرامی ہے کہ بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، (بخاری)، پھر فرمایا کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالتی ہے اسے چھوڑ کر اس کو اختیار کر جو شک میں ڈالنے والی نہیں ہے، کیونکہ سچ قلبی طمانیت ہے اور جھوٹ شک و اضطراب (پیدا کرنے والی چیز) ہے، (ترمذی)، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو اور روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو، یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کر گزرے، (مسلم)، قارئین کرام اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے اخلاق و عادات کو اسوۂ رسولۖ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں تو ہمیں ایک اور اچھی عادت کو بھی اپنی زندگیوں میں لانا ہو گا اور وہ ہے صبر و استقامت، حضرت ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر اچھا اور ہمہ گیر عطیہ نہیں دیا گیا، (مسلم)، اور پھر فرمایا کہ صبر روشنی ہے، (مسلم)، اور ایک روایت میں آتا ہے کہ صبر نصف ایمان ہے، (بیہقی)، امام طبرانی سے منقول ہے کہ صبر کرنا اور اللہ کے اجر کی امید پر کام کرنا غلاموں کو آزاد کرنے سے افضل ہے اور ان صفات کے حامل کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا، اور صبر تین طرح کا ہے اول یہ کہ کسی بھی مصیبت پر صبر کرنا، دوم یہ کہ اللہ اور اس کے رسولۖ کی اطاعت پر صبر یعنی اس پر ثابت قدمی اختیار کرنا اور سوم یہ کہ نافرمانی سے صبر یعنی خود کو اللہ اور اس کے رسولۖ کی نافرمانی اور حکم عدولی سے باز رکھنا، دعا ہے کہ اللہ پاک ہم اس کو اخلاق حسنہ سے مزین فرمائے، آمین۔
Load/Hide Comments