جامعہ پشاور میں پہلے سے 54 شعبہ جات میں تعلیم دی جارہی تھی ۔ لیکن کئی برسوں سے والدین اور طلبا کا یہ مطالبہ تھا کہ جد ید تقاضوں کے حامل ایسے مضامین کی تعلیم کا بھی بندوبست کیا جائے جو آج کے جدید مارکیٹ کی ضرورت ہیں ۔فارمیسی اینڈ ہیلتھ سائنسز میں بی ایس کارڈیالوجی ٹیکنالوجی ، بی ایس ریڈیالوجی ٹیکنالوجی ، بی ایس ڈینٹل ٹیکنالوجی ، بی ایس ایمرجنسی سروسز ، بی ایس میڈیکل لیبارٹری ٹیکنیشن ،ڈاکٹر اف اپٹیمیٹری اور بی ایس سرجیکل ٹیکنالوجی۔ہیلتھ اینڈ نیومیریکل سائنسز میں بی ایس ارٹیفیشل انٹیلجینس،بی ایس ڈیٹا سائنس ، بی ایس سافٹ وئیر انجینئرنگ ، بی ایس سائبر سیکیورٹی ۔ منیجمنٹ اینڈ انفارمیشن سائنسز میں بی ایس اکاونٹنگ اینڈ فنانس، بی ایس بزنس انٹیلجنس اینڈ اینلیٹیکس، بی ایس گورنس اینڈ پبلک پالیسی ، بی ایس پراجیکٹ منیجمنٹ ، بی ایس لوجسٹکس اینڈ سپلائی چین اینلیٹیس، بی ایس ہیومن ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی سٹڈیز ( برائے طالبات ) بی ایس فیشن ڈائزیننگ ( برائے طالبات) یہ اٹھارہ نئے پروگرام وہ ہیں جن کی آج کی مارکیٹ میں بہت زیادہ مانگ ہے ۔ جامعہ پشاور نے اس چند برس پہلے ڈیولپمنٹ سٹڈیز ، کریمینالوجی ، ہوٹل اینڈ ٹورازم منیجمنٹ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن ، ڈیزاسٹر اینڈ پریپرڈنس منیجمنٹ ، جی آئی ایس اینڈ ریموٹ سائنسنگ جیسے مضامین شروع کیے تھے جن سے اب طالب علم فارغ ہورہے ہیں ۔ ایک ساتھ اتنے زیادہ پروگراموں کا شروع کرنا ایک بہت بڑا اقدام ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں اس وقت اٹھارہ ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔ ان پروگراموں کے ساتھ ان کی تعداد بیس ہزار ہوجائے گی ۔ اگر یونیورسٹیاں اسی طرح نئے پروگراموں کا اجراء کرتی ہیں تو مستقبل میں ہمارے بچے بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں جاکر یا آن لائن اچھے مواقع حاصل کرسکتے ہیں ۔اگلے سمسٹرز سے پشاور یونیورسٹی مزید اس طرح کے نئے پروگراموں کا آغاز کرے گی ۔ ساتھ ہی یونیورسٹی ان شعبہ جات کو جو یکساں تعلیم دیتے ہیں ان کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے وسائل کا کم استعمال ہوگا اور نئے مضامین کے لیے کلاس رومز اور دیگر سہولیات میسر ہوسکیں گی ۔ جامعہ پشاور میں کالج اف ہوم اکنامکس بھی ہے جہاں طالبات کے لیے مختلف تعلیمی شعبوں میں مواقع موجود ہیں ، اس کالج میں انتہائی تجربہ کار اور باصلاحیت اساتذہ ہیں ۔ لیکن ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی یہ ہے کہ والدین بچوں کو صرف ڈاکٹر بنانے کی دھن میں رہتے ہیں اور جب وہ ایم ڈی کیٹ میں کامیابی حاصل نہیں کرتے تو وہ بچوں کو کئی برس اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں جن سے ان کے قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں اور پھر وہ بچے تعلیم کی طلب ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگر والدین بچوںکو اگر وہ میڈیکل کی تعلیم سے رہ جاتے ہیں بروقت اچھی اور بڑی یونیورسٹیوں میں داخل کریں تو ان بچوں کا مستقبل بن جائے گا اور وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوںگے ۔ اگر حکومت یونیورسٹیوں کی سرپرستی کرے اور ان کے مالی مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرے تو یونیورسٹیوں میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ قوم کے بچوں کو اچھے ماحول میں کل کے چیلنجوں کے لیے تیار لیے تیار کرسکتے ہیں ۔ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کی حکومتوں نے اپنی یونیورسٹیوں پر توجہ دینے شروع کی تو ان کی اکانومی بہتر ہوتی گئی ، وہاں شرح غربت بہت زیادہ کم ہوگئی اور نئی نسل جدید تعلیم کو بنیادبنا کر کثیر زرمبادلہ ملک لارہی ہے ۔ یہی آسان فارمولا ہماری حکومتیں بھی اپنا کر اس ملک کے مالی اور انتظامی مشکلات کو کم کرسکتے ہیں ۔
ملک میں بے روزگار ی ایک بہت بڑی وجہ ہے ملک میں انتظامی عدم استحکام کی ۔ بے روزگاری کو مقصدی تعلیم کے ذریعہ ہی دور کیا جاسکتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں اب تقریباً ہر ضلع میں یونیورسٹی ہے اور چند کلومیٹر کے بعد کالجز ہیں ۔ جن میں لاکھوں کی تعدا دمیں طالب علم ہیں لیکن جس طرح کی تعلیم اور جن مضامین میں ان کو تعلیم دی جارہی ہے وہ مسائل حل کرنے کی جگہ معاشرے میں بے روزگاروں کی فوج تیار کررہی ہے ۔ بہت سارے مضامین جو ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائے جارہے ہیں ان کی اب نہ تو معاشرے کو ضرورت ہے اور نہ ان کی بنیاد پر کہیں کوئی نوکری یا روزگار دستیاب ہے ۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اور ادارے اپنے نظام تعلیم کا ازسر نو مطالعہ کریں اور جو جو مضامین اور پروگرام اب بے ضرورت ہوچکے ہیں ان کو بند کرکے جدید تقاضوں اور ضرورتوں والے مضامین اور پروگراموں کا اجراء کریں ۔ اور طلبا میں صرف ڈگریاں تقسیم کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں جاہل ان اداروں سے فارغ کرنے کی جگہ ایسے افرادی قوت تیار کرنے کا آغاز کرے جو ملک کی معیشت اور انتظام میں معاون ہوں اور ان کی تعلیم ملک کے اندر اور ملک سے باہر انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرسکے ۔ کتابی تعلیم سے اب دنیا عملی تعلیم پر منتقل ہورہی ہے ۔ لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیں ہمارے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں کمپیوٹر کی تعلیم کہیں پر بھی نہیں دی جاتی اور نہ بچوں کو کمپیوٹر کہیں دستیاب ہیں اور نہ اساتذہ کو کمپیوٹر کی الف بے آتی ہے ۔ جبکہ اب دنیا ای کامرس اور ای منیجمنٹ پر منتقل ہوچکی ہے ۔ ہمارے ملک میں باامر مجبوری ہمیں دنیا کا ساتھ دینے کے لیے ان ٹیکنالوجیز پر جانا پڑے گا ۔ مگر ایسا اس وقت ممکن ہوگا کہ ہمارے پڑھے لکھے بچے کمپیوٹر کے استعمال پر قدرت رکھتے ہوں اور اس کا افادی استعمال جانتے ہوں ۔ اس لیے کہ جن کے پاس کمپیوٹر ہیں بھی وہ ان کو گیمز کھیلنے اور فلمیں دیکھنے اور سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے ہی استعمال کررہے ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک میں بچے مکمل طور پر کمپیوٹر پر تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہے ہیں ۔ پشاور یونیورسٹی نے اس ضرورت اور کمی کو محسوس کرکے اس کے لیے انتظامات شروع کردئیے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔
Load/Hide Comments