اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے وزارت داخلہ کی درخواست پر فوج تعینات کر دی گئی ہے ، وزیر اعظم شہبا ز شریف کی منظوری کے بعد وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے نوٹیفییکشن کے مطابق ایس سی او کانفرنس کے دوران سیکورٹی کے سلسلے میں اسلام آباد میں فوج کو تعینات کر دیاگیا ہے جس نے گزشتہ رات سے اپنی ذمہ داریان سنبھال لی ہیں یہ کارروائی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی ہے ، وزارت داخلہ کے نوٹیفیکشن میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پانچ سے 17اکتوبر تک فوج تعینات رہے گی ، سیکورٹی کی ذمہ داری فوج کے حوالے ہو گی جبکہ پولیس سمیت دیگر ادارے فوج کی معاونت کریں گے ۔ خیبر پختونخوا سے بھی پاک فوج کے دستے اسلام آباد طلب کر لئے گئے ہیں سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) سمٹ کی سیکورٹی میں انتشار کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی ، پاک فوج کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کو برقرار رکھنا ہے ، دستے اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح اور حساس علاقوں میں فرائض انجام دیں گے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی اہم نوعیت کی سرگرمی ہوتی ہے جس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانا ہو تو بعض سیاسی حلقے اس کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں ، اس سے پہلے بھی جب نواز شریف کی حکومت کے دوران سی پیک منصوبے کے تحت بہت بڑے پیمانے پر مختلف معاہدے ہونے کی تیاریاں کی جارہی تھیں اور چین کے سربراہ کے دورے کی تیاریاں کی جارہی تھیں تو سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے مبینہ طور پر بیرونی قوتون کی شہ پر تحریک انصاف اور مولانا طاہر القادری کو (جو کینیڈا میں مقیم تھے)لا کر ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کیا گیا اور دونوں رہنمائوں کی قیادت میں تب بھی اسلام آباد پر یلغار کرکے 124 روز کا دھرنا ، دارالحکومت کے انتہائی حساس علاقے ڈی چوک میں دلوایا گیا امریکہ اور بھارت کسی طور نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے اس منصوبے پر عملدرآمد ہو اور اسے اقتصادی خود مختاری نصیب ہو ، کیونکہ تب سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے آئی ایم ایف کی آخری قسط ادا کرنے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ دیا تھا ، بلکہ امریکی اور بھارتی شہ پر اس دھرنے کی سہولت کاری ملک کے اندر سے بھی بعض طاقتور لابیاں کر رہی تھیں جن کی حقیقت اب مکمل طور پر آشکار ہوچکی ہے اس کے بعد ملک کی اقتصادی اڑان کو کس طرح زمین بوس کرکے نہ صرف آنے والے انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر ایک ایسی حکومت کو ملک پر مسلط کیاگیا جس نے آتے ہی نہ صرف سی پیک کو معطل کر دیا بلکہ اس حوالے سے حساس معلومات اور دستاویزات مبینہ طور پر امریکہ کے حوالے کرکے چین جیسے دوست کو ناراض کر دیا اور ایسے حالات پیدا کئے کہ ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے درپوزہ گری پر مجبور کر دیا جن اندرونی قوتوں نے انتخابات چرا کر ایک خاص جماعت کو ملک پر مسلط کیا تھا بعدمیں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے مسلط کردہ حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا تو اس کے خلاف ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین کے عین مطابق تحریک عدم اعتماد لائی گئی مگر جاتے جاتے اس حکومت نے ملکی اقتصادات میں ”باوردی سرنگیں بچھا کر” ایسے حالات پیدا کئے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اب ایک بار پھر نہ صر ف شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ملکی معیشت کی اڑان کے حوالے سے ممبر ممالک کے درمیان نئے نئے اقتصادی معاہدے طے ہوں گے بلکہ چین کے اہم رہنماء بھی سی پیک ٹو کے حوالے سے آکر کھربوں کے معاہدے کرنے جارہے ہیں اس موقع پر ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت میں معزز مہمانوں کی آمد کو ایک بار پھر 2014ء کی طرح متاثر کرنے اور دنیا کو یہ ظاہر آنے کے لئے احتجاج کا ڈول ڈالنے والوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے لئے حکومتی اقدامات کو سراہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں جولوگ پاکستان کو اقتصادی طور پر ترقی سے ہمکنار کرنے کی راہ میں (کسی بھی غیر ملکی یا ملکی)قوتوں کے اشارے پر روڑے اٹکانے کی کوششیں کر رہے ہیں ان سے بھر پور طریقے سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے امید ہے جو قوتیں ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی عقل کے ناخن لیتے ہوئے وطن دشمنی جیسے اقدام سے باز رہیں گی۔