جب اتحادی حکومت نے اپریل 2022 میں اقتدار سنبھالا، تو اسے ایک خراب معیشت وراثت میں ملی جو سنگین مائیکرو۔ اقتصادی عدم توازن کا شکار تھی۔ ان میں وہ بے شمار مالیاتی مسائل شامل تھے جن میں سب سے زیادہ عوامی قرض جو 49.242 کھرب روپے تک پہنچ گیا تھا، جبکہ غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور کرنسی کی قدر میں تیزی سے گراوٹ شامل تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ 39.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور بہت زیادہ گردشی قرضہ 2.4 کھرب بھی تھا۔
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.9 فیصد اور کرنٹ اکانٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فصد بھی اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔ ان سب اقتصادی مشکلات کی موجودگی میں، حکومت نے معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
اسی فیصلے کے تحت حکومت نے ملک کے نامور عوامی اور نجی شعبے کے سٹیک ہولڈرز، صوبائی حکومتوں، ملکی اور بین الاقوامی نجی شعبے کے نمایاں کردار، غیرملکی مشن، بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں، مالیاتی اداروں، آزاد ماہرین، سیاسی جماعتوں، وفاقی وزارتوں، اکیڈیمیا، تھنک ٹینکس، این جی اوز، پارلیمان کے اراکین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے تجاویز طلب کیں اور ان سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا۔
ان وسیع مشاورتوں کے نتیجے میں وزارت منصوبہ بندی نے 5Es فریم ورک تیار کیا۔ 5Es فریم ورک مختصر سے درمیانی مدت میں معاشی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی پیش کرتا ہے۔
نئے سرے سے تیار کیا گیا معاشی بحالی کا پروگرام بھی انہی فائیو ایز کے گرد گھومتا ہے۔ اس کے تحت درآمدات، ای پاکستان، انرجی، پانی، ماحولیاتی تبدیلیوں اور صنفی مساوات جیسے اہم شعبوں کو بہتر بنا کر ملکی معیشت کو اپنے پاں پر کھڑا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
اس پروگرام کے مسودے کے مطابق معاشی بحالی کا پہلا ذریعہ برآمدات ہیں۔ اس منصوبے میں پاکستان کی اقتصادی پالیسی میں برآمدات کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ ماڈل عالمی سطح پر مسابقتی معیشت کی ترقی میں مدد دے گا۔ برآمدات پر مبنی اقتصادی ترقی کے ذریعے ملک غیرملکی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ کر سکتا ہے اور تجارتی خسارے کو کم کر سکتا ہے۔ حکومت نے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں جن کا مقصد پیداواریت کو بڑھانا، مارکیٹ میں تنوع پیدا کرنا، اور بین الاقوامی معیار کے مطابق مصنوعات کی برانڈنگ کرنا شامل ہے۔ اہم شعبوں میں، پاکستان کی برآمدات کا تقریبا 60 فیصد ٹیکسٹائل پر منحصر ہے، جو کہ ایک محدود جغرافیائی دائرہ کار میں یورپ، امریکہ، اور چین جیسے ممالک میں مرکوز ہے۔
برآمدات کو بڑھانے کے لیے نیشنل پروڈکٹیوٹی ماسٹر پلان ترتیب دیا جائے گا جبکہ ایشین پروڈکٹیوٹی آرگنائزیشن (APO) اور کورین ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ (KDI) کے ساتھ معاہدے بھی کیے جائیں گے۔
اسی طرح وسطی ایشیائی ریاستوں اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی توثیق بھی کی جائے گی اور ایران کے ساتھ سرحدی منڈیوں کا قیام عمل میں لائے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔
ڈیجیٹل ترقی اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے پاکستان میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات کی کم سطح کے باوجود، حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو مزید تقویت دی جائے۔ اس حوالے سے مختلف اقدامات جیسے ای-کامرس پالیسی، نیشنل آئی ٹی بورڈ اور ڈیجی سکلز جیسے پروگراموں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھائی جا سکیں۔
اس کے علاوہ روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پانی کی قلت، زمین کی فرسودگی، اور خوراک کی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے مختلف قانونی اور پالیسی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ جن میں کلین گرین پاکستان انیشی ایٹو، نیشنل ایئر پالیسی 2023 میں مزید بہتری اور بائیو-ریمیڈیئشن کے ذریعے فضلے کی صفائی کا نظام متعارف کرانا شامل ہیں۔
توانائی اور انفراسٹرکچر کی کمی نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو بہت متاثر کیا ہے۔ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سبز توانائی کے ذرائع جیسے ہوا، شمسی، اور ہائیڈرو پاور کو فروغ دے رہی ہے۔
اس سلسلے میں 660 کے وی ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن منصوبہ ترتیب دیا گیا گیا ہے اور نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن پالیسی 2023 میں مزید اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں۔ سبز توانائی کے منصوبوں کے لیے پرائیویٹ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا لائحہ عمل بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔
پاکستان میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے اہم اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ان میں صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کی خدمات تک رسائی کو بڑھانے کی کوششیں شامل ہیں۔
منصوبے کے تحت جو اہم اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ان میں قومی صحت کے پروگرام، تعلیمی شعبے میں اصلاحات، خواتین اور معذور افراد کے لیے خصوصی سکیمیں اور تربیتی مراکز کا قیام شامل ہے۔
اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف اکنامک پالیسی سٹیفن ڈرکن کے تیار کیے گئے منصوبے کے تحت کسی بھی شعبے کو فراہم سبسڈی ختم کرنے اور مقامی پرڈیوسرز کو عالمی معیار کے برابر لانے، اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکانٹ خسارے کو سنبھالنے کے لیے درآمدات پر پابندی ختم کرنے، درآمدی محصولات، جیسے اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور برآمدی ڈیوٹیوں میں اصلاحات لانے کی تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریونیو بڑھانے کے کئی ایک طریقے بھی تجویز کیے ہیں۔
Load/Hide Comments