اسلام ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج روکنے کی درخواست پر بڑا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی ، یقینی بنایا جائے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے دوران اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈائون کی صورتحال پیدا نہ ہو تاجروں کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور حکومت احتجاج کے لئے مناسب جگہ مختص کرے، مظاہرین انتظامیہ کی جانب سے مختص کردہ جگہ پر جا کر احتجاج ریکارڈ کروائیں ، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 عوام کو اجتماع اور نقل و حرکت کے بنیادی حقوق فراہم کرتے ہیں ، تاہم یہ بنیادی حقوق قانون کے مطابق لگائی گئی مناسب قدغن پر منحصر ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے تاجروں نے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ایک ایسے موقع پر جب ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا جارہا ہے جبکہ اس سے پہلے ملائشیا کے سربراہ کا بھی دورہ شیڈول تھا (جو اب بہ خیر و خوبی اختتام پذیر ہو چکا ہے ) اسلام آباد میں احتجاج اور خصوصی طور پر ریڈ زون کے ڈی چوک میں مبینہ طور پر دھرنا دینے کا کئی روز سے اعلان کیا جارہا تھا ، ایسی صورتحال میں غیر ملکی مہمانوں کی حفاظت او ر مجوزہ اجلاس کی راہ روڑے اٹکانے کے خدشات کے پیش نظر نہ صرف حکومت نے اسلام آباد کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا تھا بلکہ احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرتے ہوئے پولیس ، رینجرز یہاں تک کے گزشتہ روز صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے فوج کو بھی بلوا کر اہم علاقوں میں تعینات کر دیا تھا ، ان تمام اقدامات کی وجہ سے اسلام آباد کے شہری تقریباً محصور ہو کر رہ گئے تھے ، بازار بند ہو گئے تھے اور عوام کو روز مرہ کی معمولات کی ادائیگی میں شدید دشواریوں کا سامنا تھا اس پر اسلام آباد کے تاجروں نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کاروبار کی بندش اور دیگر دشواریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلام آباد کو سیل کرنے کے خلاف ضروری اقدامات اٹھانے کی درخواست کی ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس سنگین صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اسلام آباد میں غیر قانونی اجتماع روکنے کے لئے اسلام آباد انتظامیہ اور حکومت کوواضح احکامات دیئے اور کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی اس ضمن میں یہ بات یقینی بنائی جائے گی حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ کسی بھی احتجاج اور اجتماع کے لئے جگہ مختص کرے ، جہاں جا کر مختلف طبقات(سیاسی وغیر سیاسی) ا پنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے تازہ فیصلے سے کم از کم یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل 16اور 17 کے مطابق عوام کو نقل و حمل اور احتجاج کا حق دیا گیا ہے تو اس کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی بجا آوری کے دوران کوئی بھی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے جو انسانی حقوق کی آڑ میں ”مادر پدر آزادی” پر منتج ہوں ، بلکہ ان کو مناسب قدغنوں کا پابند بھی بنایا گیا ہے بد قسمتی سے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے بعض سیاسی قوتیں(مناسب یا غیر مناسب) احتجاج کے لئے آئین کی متعلقہ دفعات کو یکطرفہ طور پر استعمال کر رہی ہیں وہ آئین کے مطابق احتجاج اور اجتماع کا حق تو مانگتی ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کو تیار نہیں ہیں ، اب اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس ساری صورتحال کو ”حدود و قیود” کے تابع کرنے کے حوالے سے جو واضح احکامات دیئے ہیں امید ہے کہ ان پر تمام طبقات ، حکومت ، حزب اختلاف ، سیاسی جماعتیں دیگر تنظیمیں اور طبقات ہائیکورٹ کے احکامات کی روح کے عین مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی ا پنی ذمہ داریوں کا تعین کریں گے ، تاکہ نہ تو معاشرے میں ا نارکی پھیلنے کے خطرات اور خدشات جنم لے سکیں نہ ہی کوئی آئین شکنی کرتے ہوئے معاشرے کو یرغمال بنانے کی کوشش کرے ، نہ ہی حکومت اور اس کی انتظامیہ غیر معمولی اقدامات سے بنیادی عوامی حقوق سلب کر سکے ، جس طرح اسلام آباد ہائیکورٹ نے جوحکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام آباد انتظامیہ حکومتی متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے ساتھ باہم مل کر عوامی احتجاج کے لئے فوری طور پر ایک ایسے مقام کا تعین کرے جہاں کوئی بھی سیاسی جماعت یا دیگر طبقات اپنے اجتماعات منعقد کر ا سکیں ، اور اس سلسلے میں ا سلام آباد کو ہر بار یوں کنٹینرز لگا کر سیل کرنے اور عام لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کی مجبوری کا سامنا نہ کرنا پڑے ، جبکہ اجتماعات اور احتجاج کے لئے جڑواں شہروں کو بند کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے ، اس سلسلے میں قانون سب کے لئے برابر کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ اجتماعات پر پابندی لگانے سے گریز کی پالیسی اپنائے ، تاکہ پرامن احتجاج کی راہ میں کوئی بھی مزاحم نہ ہو سکے ۔