دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں لوگ احتجاج کرتے ہیں لیکن پاکستان میں تو ایسا عجیب کلچر بن گیا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے جب سڑک بند نہ ہورہی ہو اور احتجاج اور ہلڑ بازی نہ ہورہی ہو ۔ احتجاج کرنے کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں اس سلسلے میں حکومت اور سیول سوسائٹی نے احتجاجوں کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو چار افراد کسی ایک مسئلہ کے لیے نکل آتے ہیں یا پھر ان کا کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ روڈ پر آجاتے ہیں اور راستہ بند کردیتے ہیں ۔جس سے وہ افراد جو ان راستوں سے گزر کر اپنے کاموں اور منزلوں کی طرف سفر کررہے ہوتے ہیں وہ متاثر ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان میں یہ اخلاقیات بھی ختم ہوگئیں ہیں کہ کسی ایمبولینس کو بچوں اور خواتین والی گاڑیوں کو بھی راستہ نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی کوشش کرے تو احتجاج کرنے والے تشدد پر اُتر آتے ہیں ۔اس ملک میں جو اپوزیشن میں ہوتا ہے وہ بھی احتجاج کرتا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ بھی احتجاج کرتا ہے ۔ جہاں حکومت یا ادارے قانون نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو لوگ اس کے خلاف احتجاج کے لیے نکل آئیں گے ۔ شہروں کی ٹریفک دیکھیں ایسا لگتا ہے ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں ہم ہی صرف گنجان آباد شہر رکھتے ہیں یا ہماری ہی آبادی بہت زیادہ ہے ۔ دنیا کے سینکڑوں شہروں کی آبادی کراچی کو چھوڑ کر پاکستان کے تمام شہروں سے زیادہ ہے اور لیکن ان شہروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ چند لوگ نکل کر روڈ بند کردیں ۔ پاکستان کے تعلیمی ادارے جن کا کام بچوں کو تعلیم و تحقیق کی سہولت دینی ہے وہاں آئے روز احتجاج ہوتے ہیں اس طرح ان تعلیمی اداروں کا ماحول تعلیمی کم اور احتجاج سینٹروں کا زیادہ لگتا ہے ۔ یہ تعداد میں دس بیس لوگ ہوتے ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ان اداروں سے ہوتا بھی نہیں ہے ۔یہ افراد برسوں سے سیاسی ، لسانی، مذہبی و علاقائی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر ان تعلیمی اداروں میں رہ رہے ہوتے ہیں اور ان کا دھندہ ہی یہی ہے کہ وہ نئے آنے والے طلبا کو اُکسا کر ان کو اپنے ساتھ شامل کریں اور ان کو تعلیم کے راستے سے نکال کر احتجاجوں اور دیگر نقصان دہ سرگرمیوں میں مصروف کریں ۔یہی سب کچھ سوڈان اور دیگر افریقی ممالک میں ہوتا رہا اور وہ لاتعداد وسائل رکھنے کے باوجود بدترین بدحالی اور تنزل کا شکار ہیں ۔
احتجاج کرنا ایک صحت مند کام ہے لیکن اس کی شروعات سڑک بند کرنے سے نہیں ہوتی ۔ شکایت درج کرنے کے لیے ہر ادارے میں ایک منظم طریقہ کار موجود ہوتا ہے ۔ جس پر کوئی عمل درآمد نہیں کرتا ۔ہر کام کرنے پر پاکستان بھر کے اداروں میں لوگ مامور ہوتے ہیں جو شکایت سنتے بھی ہیں اور ان کا حل بھی ڈھونڈتے ہیں ۔ لیکن ہم اس آسان طریقہ کار کو نہیں اپناتے اور چھوٹے سے مسئلہ کو جو حکام کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے وہ نہیں کرتے اور شر پسند وں کے بہکاوے میں آکر ملکی نظام کو مفلوج کردیتے ہیں ۔ یہ بڑے پیمانے پر سیاسی ، علاقائی و مذہبی و مسلکی جماعتیں کرتی ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی چھوٹے پیمانے پر دیگر لوگ کرتے ہیں ۔ اس ملک میںجب تک لوگوں کو احتجاج کرنے کا سلیقہ نہیں سکھایا جائے گا تب تک یہاں کا نظام نہیں چل سکے گا ۔ اس سلسلے میں پارلیمان کو قانون سازی کرنی چاہئیے اور پھر اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہوگا ۔ ملک کا معاشی و انتظامی نظام وصورتحال پہلے ہی خراب ہے ایسے میں یہ احتجاج اور دھرنے ، روڈ بلا ک اس کو مزید خراب کردیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں پولیس پر جو دباؤ آتا ہے اس کی وجہ سے پولیس اپنے روٹین کی ڈیوٹی سے قاصر ہوتی ہے ۔ جس کا فائدہ شر پسند اور جرائم پیشہ افراد اٹھاتے ہیں ۔ اس لیے کسی بھی احتجاج یا دھرنے ، روڈ بلاک کی صورت میں شہر یا علاقہ کی تمام پولیس ان کو سنبھالنے پر مامور ہوجاتی ہے اور ان کی اصل ڈیوٹی کے لیے ان کو بندے دستیاب ہی نہیں ہوتے ۔ پھر پولیس سیاسی لوگوں سے مجبور ہوکر قانون توڑنے والوں یا روڈ بلاک کرنے والوں کے خلاف کاروائی سے بھی قاصر ہوتی ہے جس سے ان کو مزید شہ ملتی ہے اور وہ اس کو معمول بنا لیتے ہیں ۔ ملک بھر میں جس بھی سیاسی جماعت نے جلسے یا جلوس یا احتجاج کرنا ہوتا ہے ۔ اس کی شروعات ایک ہفتے پہلے تعلیمی اداروں سے کی جاتی ہے جہاں سے معصوم بچوں کو اُکسا کر پہلے اس ادارے کا تعلیمی ماحول تباہ کیا جاتا ہے پھر ان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اپنے صوبائی اور ملک گیراحتجاج اور ہڑتالوں یا جلسوں میں شریک کیا جاتا ہے ۔ ان بچوں کو ان کے والدین نے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے لیے بھیجا ہوتا ہے ۔ ان کاکام اپنی تعلیم پر توجہ دینا ہے ۔ یہ ہڑتالوں ، جلسہ جلوسوں ، اور دھرنوں کا ایندھن بنتے ہیں ۔ کسی بھی مہذب دنیا میں اس کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ یہ وہ عمومی مسائل ہیں جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے حکومت کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں انہیں پابند بنائیں کہ انہیں جس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں داخل کیا گیا ہے وہ اس پر توجہ دیں اور ایسی سرگرمیوں سے بچیں جن کی وجہ سے ان کا وقت ضائع ہوتا ہو اور ان پر ایف آئی آر ہوسکتی ہو یا ان کا تعلیمی سلسلہ ختم ہوسکتا ہو ، یا پھر انہیں ذہنی و جسمانی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اس لیے کہ تعلیمی اداروں میں ان کی صحبت اگر بدقماش لوگوں کے ساتھ ہے تو وہ عمدہ اخلاق و تربیت حاصل کرنے کی جگہ منشیات اور مجرمانہ ذہنیت اور کاموں کے عادی ہوجائیںگے ۔ جس کی وجہ سے وہ پھر عمر بھر ان کے لیے مستقل درد سر بن جائیں گے ۔اس ملک میں مسائل کا تعین کرنے اور ان کے حل کے لیے قومی و صوبائی سطح پر تھینک ٹینک بنا کر یا پھر جامعات سے ماہرین کو جمع کرکے صلاح و مشورے اور ایک مکمل سڑیٹیجیک پلان بنانے کی ضرورت ہے اور پلان کے حساب سے قانون سازی کرکے ان پر مرحلہ وار عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ ورنہ یہ لاقانونیت اور ہلڑ بازی ، جلسے جلوس، ہڑتالیں اور دھرنے پاکستان کو انتظامی ، معاشی اور سماجیاتی تباہی سے دوچار کریں گے ۔
Load/Hide Comments