مشرق وسطی میں وسیع ہوتی جارحیت

فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ایوان صدر میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کامتفقہ مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اسرائیلی درندگی رکوانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ میں ہر گزرنے والے لمحے میں فلسطینی مردوزن اور بچے شہید ہورہے ہیں۔ اسرائیل نے اپنی جارحیت کا دائرہ یمن، شام اور لبنان تک بڑھادیا ہے۔ ان حالات میں مسلم امہ پر فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کو تنہا نہ چھوڑے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر ایوان صدر میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت صدر مملکت آصف علی زرداری نے کی جبکہ کانفرنس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن، استحکام پارٹی کے علیم خان، بی اے پی کے خالد مینگل، ق لیگ کے سالک حسین مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اے این پی کے صدر سینیٹر ایمل ولی خان کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔ پاکستان فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ عالمی فورمز پر اٹھاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قومی موقف یہی ہے کہ اسرائیل تمام مقبوضہ عرب علاقوں سے دستبردار ہو اور فلسطینیوں کے حق آزادی کو تسلیم کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ قرارداد پاکستان کے تناظر اور قائداعظم کے ارشاد کی روشنی میں ہم اسرائیل کو کبھی بھی جائز ریاست نہیں سمجھتے انہوں نے اسلام آباد میں حماس کا دفتر کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے کہا کہ اسرائیلی ریاست فلسطینی مسلمانوں پر جس طرح مظالم ڈھارہی ہے ایسے مظالم ہم نے قبل ازیں دنیا میں نہیں دیکھے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہاکہ کہ آج پورا پاکستان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کررہا ہے۔ پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام اور ان کے حق آزادی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ عالمی طاقتوں اور اداروں کو مشرق وسطی کی صورت حال اور 41 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادتوں سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی دعوت وزیراعظم شہباز شریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے مشورے سے دی تھی۔ سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے قبل ازیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کرلی تھی لیکن شرکت نہیں کی اے پی سی میں پی ٹی آئی کی جانب سے آخری وقت پر شرکت نہ کرنے کے اعلان کو اس کے سیاسی مخالفین اور ناقدین جس انداز میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود بعد کا زندہ ثبوت ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کو حالات جیسے بھی تھے اس کانفرنس میں شرکت کرکے مظلوم فلسطینی عوام سے یکجہتی کے مظاہرے کے ساتھ عالمی برادری پر بھی یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ داخلی سیاست کے اختلافات کیسے بھی کیوں نہ ہوں مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے 25 کروڑ باشندے اوران کی سیاسی جماعتیں ایک ہی موقف پر قائم ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد اسلامی دنیا کے کسی ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع تھا۔ ایوان صدر میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس برائے اظہار یکجہتی فلسطین کے کوئی سیاسی و ریاستی یا شخصی مقاصد ہرگز نہیں تھے یہ خالصتا ایک انسانی مسئلہ اور فلسطینی عوام کے حق آزادی کی حمایت کے لئے بلائی گئی کانفرنس تھی۔ تحریک انصاف جو اپنے بانی چیئرمین کو اسلامی دنیا کے رہنما کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتی اس کانفرنس میں شریک ہوتی تو یہ عالمی مسائل پر قومی موقف سے ہم آہنگی کے تاثر کے حوالے سے بہتر پیغام ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت کم قومی اتفاق رائے دیکھنے میں آتا ہے۔ بہرحال ایوان صدر میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا اور مقررین نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے مظلوم و بے نوا فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کیا۔ پاکستانی عوام اپنے سیاسی قائدین وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہمیشہ یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کا سایہ ان معاملات پر نہیں پڑنے دیں گے جو روز اول سے قومی موقف کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین انہی میں سے ایک ہے۔ جہاں تک امیر جماعت اسلامی کے اس مطالبہ کا تعلق ہے کہ حماس کو اسلام آباد میں دفتر قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو بظاہر اس تجویز یا مطالبہ میں کوئی برائی نہیں البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ فلسطینی سفارتخانے کی موجودگی میں حماس کا دفتر کھولنے کی اجازت دینے سے سفارتی مسائل تو پیدا نہیں ہوں گے؟ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان اختلافات گو ان کا باہمی معاملہ ہے پاکستان نے ماضی میں متعدد بار فلسطینی بھائیوں کے دونوں نمائندوں فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان اختلافات کو طے کرانے کے لئے کوششیں کیں مگر افسوس کہ یہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ اندریں حالات زیادہ اہم بات یہ ہے کہ غزہ، لبنان، شام اور یمن میں جاری اسرائیلی بربریت کی دوٹوک انداز میں نہ صرف کھل کر مذمت کی جائے بلکہ اگر ممکن ہو اور وسائل اجازت دیں تو ایک مشترکہ پارلیمانی وفد تشکیل دیا جائے جو دوست ممالک کے ساتھ باقی ماندہ دنیا کی مملکتوں کے دارالحکومتوں میں جاکر وہاں کی حکومتوں، عوام اور ذرائع ابلاغ کے سامنے اسرائیلی بربریت سے جنم لینے والے المیوں اور جنگ کے وسیع ہوتے دائرے کے بڑھتے خطرات پر پاکستان کی حکومت اور عوام کا موقف پیش کرتے ہوئے ایک ایسی عالمی پرامن تحریک کو منظم کرنے کے لئے کوششیں کرے جو طاقتور ممالک اور عالمی اداروں بالخصوص اسرائیل کے ہمنوا ممالک پر دبائو بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ ہماری دانست میں گزشتہ روز فرانسیسی صدر کی جانب سے اسرائیل کو مزید دفاعی سازوسامان دینے کی پابندی کے اعلان کے بعد مسلم دنیا کو فرانس سے کسی تاخیر کے بغیر رابطہ کرکے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کو بھی اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اسرائیلی ریاست کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے لئے مزید جنگی سازوسامان نہ دیں۔ ہمیں امید ہے کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی حمایت و امداد میں پاکستانی حکومت اور عوام کسی بھی مرحلے پر تساہل نہیں برتیں گے۔

مزید پڑھیں:  اسے ضائع نہ ہونے دیا جائے