صوبائی اسمبلی کا ڈیکورم؟

خیبر پختونخوا اسمبلی میں گزشتہ کچھ عرصے سے اخلاقیات کے منافی اقدامات کے نتائج پر غور کیا جائے تو اسے کسی بھی مہذب ، باوقار اوراحترام باہم کے مطابق قائم معاشرے کے اقدار کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا ، پختون معاشرے کے کلیدی کردار جن عناصر خمسہ سے تشکیل پاتے ہیں ان کا تو کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، خصوصاً خواتین کا احترام اور ان کی موجودگی میں زبان اور جسمانی حرکات کو جس طرح قابومیں رکھنے کی روایات ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اب بقول شاعر ، حمیت نام ہے جس کا گئی تیمورکے گھر سے کے مصداق ان روایات کی شکست و ریخت کا معاشرے پر غلبے کے آثار صاف دیکھے جا سکتے ہیں گزشتہ روز جس طرح دو ارکان اسمبلی کے مابین ”کسی بات” پر پہلے تلخ کلامی پھر گالم گلوچ اور ازاں بعد ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد گیلری میں براجمان دونوں ارکان کے عزیز رشتہ دار بھی آپس میں الجھ پڑے اس پر صرف افسوس کا اظہار ہی کافی نہیں ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ اسمبلی کی خواتین ارکان نے بھی گالم گلوچ پر شدید احتجاج کیا ہے اپوزیشن کی خواتین نے پلے کارڈز اٹھاکر سپیکر ڈائس کاگھیرائو کرتے ہوئے غیر پارلیمانی الفاظ پرشدید اعتراضات کئے یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے اپوزیشن کی ایک خاتون رکن پر بھی نہ صرف ہائوس کے اندر بلکہ گیلری میںبیٹھے ہوئے مہمانوں کی جانب سے انتہائی رکیک حملے ، شدید جملے بازی اور اخلاقیات سے گرے ہوئے جملے کسے گئے تھے ، جو پختون معاشرے کے عمومی رویئے کے لئے باعث شرم و ندامت ہی قرار دیئے جا سکتے ہیں اب گزشتہ روز جس قسم کی گالم گلوچ کی گئی وہ بھی خواتین کی موجودگی میں تو یہ کسی بھی طور ایک مہذب معاشرے کے لئے باعث برداشت قرار نہیں دی جا سکتی اگرچہ مہمانوں کی گیلری کے لئے تمام اجازت نامے منسوخ کر دیئے گئے ہیں تاہم یہ صورتحال کب تک قائم رہ سکتی ہے ظاہر ہے کچھ عرصے بعد پھر یہ اجازت نامے جاری ہونا شروع ہو جائیں گے تو آخر اس کا حل کیا ہو گا؟ اس پر اسمبلی کے سپیکر اور دیگر متعلقہ افراد کو ضرور سوچنا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  بند گلی میں کون ہے ، پاکستان یا پی ٹی آئی ؟