دہشت گردی کا بھیانک واقعہ

بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر ایک خاص صوبے کے افراد کو نشانہ بنانے کے جاری عمل میں تبدیلی اور بطور خاص پشتو بولنے والی برادری کے افراد کو نشانہ بنانے کا عمل نسلی تعصب اور منافرت کا رخ تبدیل ہونے کا عمل ہے یا پھر حملہ آوروں کو کوئلے کی کان کی بندش مطلوب تھی بہرحال اس منصوبہ بند حملے کی نوعیت زیادہ سنگین ہونا اور جدید اسلحے کا استعمال دونوں ہی مزید تشویش کا باعث امر ہے ۔گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک میں ہونے والے دوسرے بڑے دہشت گردانہ حملے میں بلوچستان کے علاقے دکی میں کم از کم20کان کنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔جس کی تفصیلات خوفناک ہیں گزشتہ اتوار کو کراچی میں چینی شہریوں کے قافلے کو نشانہ بنانے والے مہلک دہشت گردانہ حملے کے بعد اپنی نوعیت کا ایک اور سنگین واقعہ ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی گروپ نے تازہ ترین حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ کوئی بھی نظریاتی مقصد اس طرح کے سرد خون کے قتل کا جواز پیش نہیں کرسکتا، اور غریب، بے دفاع کارکنوں کو نشانہ بنانا دہشت گردی کی کارروائی تھی۔ دکی زیادہ تر پختون علاقہ ہے، اور مبینہ طور پر حملے کے زیادہ تر متاثرین کا تعلق ایک ہی نسلی برادری سے ہے، جن میں کچھ افغان شہری بھی شامل ہیں۔اس واقعے کا ممکنہ مقصد ملک میں نسلی انتشار کو ہوا دینا، اور کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، دہشت گردانہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کے غیر ملکی دوست ملک میں خاص طور پر بلوچستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیںمقصد کچھ بھی ہو اور مجرم کوئی بھی ہو، تشدد کے پیچھے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ دیگر واقعات کی طرح اس واقعے کے بھی ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے انتظامیہ کو سول اور ملٹری سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک فول پروف پلان پر عمل درآمد کرنا چاہئے جو پاکستان کو درپیش بہت سے خطرات سے نمٹ سکے۔

مزید پڑھیں:  بلاول اور پیپلز پارٹی کہاں کھڑے ہیں