درسی کتب کی مفت فراہمی میں مشکلات

پورے ملک کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی سرکاری سکولوں میں مفت کتب کی فراہمی کے حوالے سے پبلشرز کو عدم ادائیگی میں آنیوالے تعلیمی سال کے دوران اس ریلیف پر سوالی نشان اٹھا دئیے ہیں اور خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ میں جاری مالی بحران کی وجہ سے پبلشرز کمپنیوں نے اگلے تعلیمی سال کیلئے کتب کی طباعت کو بقایا جات کی مد میںفنڈز کی ادائیگی اور نئے ٹینڈرز کیلئے رقم بطور ایڈوانس دینے سے مشروط کر دیا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ درسی کتب کی اشاعت اور طلبہ کو فراہمی کے سلسلے میں پبلشر کمپنیوں کے گزشتہ دو سالوں سے بقایا جات جمع ہیں جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس مد میں قلیل فنڈز دئیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بقایا جات کا حجم بڑھ رہا ہے، ذرائع کے مطابق اس وقت ٹیکسٹ بک بورڈ کے ذمے بقایاجات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بحران چل رہا ہے، اس صورتحال کی وجہ سے پبلشر کی جانب سے شرط رکھی گئی ہے کہ پیسے جاری نہ ہونے کی صورت میں ان کے پاس اگلے تعلیمی سال کیلئے درسی کتب کی طباعت کیلئے کاغذ اور کیمیکل وغیرہ موجود نہیں ہوگا ،جس سے کتب کی طباعت بروقت نہیں ہو سکے گی، جہاں تک کتب کی طباعت کیلئے کاغذ اور کیمیکلز کا تعلق ہے تو دنیا کے دیگر ممالک کو ایک طرف رکھیئے ہمارے ہمسایہ بھارت میں درسی کتب کیلئے مخصوص ”بک پیپر ” انتہائی سستے داموں سرکاری طور پر فراہم کیا جاتا ہے ،جس سے نہ صرف کتب کی اشاعت پر اخراجات میں کمی ہو جاتی ہے بلکہ ادبی کتب کیلئے بھی یہی کاغذ سستے داموں دستیاب ہوتا ہے ،یوں ادب کی ترویج بھی آسان اور قارئین کو اچھی کتابیں کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، مگر اس کے برعکس ہمارے ہاں اربوں کے فنڈز حکومت مخالف احتجاجی جلسوں، جلوسوں پر خرچ کرنا تو عین” کار ثواب” سمجھا جاتا ہے مگر علم کی ترویج کیلئے فنڈز دستیاب نہیں ہوتے ،اس وقت بھی اسلام آباد پر یلغار کر کے ایس سی او کے اجلاس کو ناکام بنانے کیلئے صوبائی حکومت کے سامنے سابقہ احتجاجی سرگرمیوں پر اٹھنے والے اربوں کے اخراجات کا معاملہ زیر غور ہے اور مزید فنڈز کی کمی کی باتیں کی جا رہی ہیں، تاہم قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے درسی کتب کی طباعت پر اٹھنے والے اخراجات کیلئے فنڈز موجود نہیں ہیں، یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  فریاد کچھ تو ہو ؟