پاک چین تعلقات کا نیا باب

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر چین کے وزیر اعظم کی آمد اور اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان مختلف منصوبوں پر تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ایک نئے باب کا آغاز ہے اس موقع پر چین اور پاکستان کے درمیان سمجھوتوں اور مفاہمت کی متعدد یاد داشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں نیو گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ کی تکمیل کی تقریب ہوئی، جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور چین کے وزیراعظم لی چیانگ شریک ہوئے۔ اس موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ہوا۔اس موقع پر چینی وزیراعظم نے کہاکہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تکمیل اہم سنگ میل ہے، منصوبے کی تکمیل کے لئے پاکستان اور چین کی افرادی قوت کی کاوشیں قابل ستائش ہیں، گوادر علاقائی ترقی کا محور ہونے کے ساتھ دونوں ملکوں کی مضبوط دوستی کا بھی عکاس ہے۔ لی چیانگ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کیلئے چین اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، پاکستان کے عوام کی خوشحالی ہمارے دل کے بہت قریب ہے ۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ اس دورے کی اہمیت کیا ہے اور پاکستان اور چین کے درمیان تعاون و تعلقات کی ضرورت و اہمیت کی نوعیت کیا اور کس درجے کی ہے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون اور خاص طور پر سی پیک کے دوسرے دور کا آغاز بطور خاص قابل ذکر امر ہے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک اور سنہرے باب کا آغاز اس دورے کے موقع پر متعدد اہم شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط سے شروع ہو چکا ہے گوادر ایئر پورٹ کے منصوبے کے آغاز سے لے کر اس کی تکمیل تک دونوں ملکوں کو اس مد میں جس قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ان تمام مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے بالاخر اس کاافتتاح کامیابی کا وہ سنگ میل ہے جسے عبورہونے کا پوری قوم کو انتظار تھا۔ گوادر کوعالمی اور علاقائی سطح کی بندرگاہ اور کاروباری مرکز کے طور پر ترقی دینے کے لئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی مناسبت سے اس کی اہمیت اور ضرورت دو چند ہو گئی ہے کیونکہ گوادر علاقائی تجارت کے مرکز کا درجہ رکھتا ہے اور یہ وسط ایشیاء کی خشکی سے گھری ریاستوں کو بین الاقوامی بحری تجارت سے منسلک کرنے کی پوری طرح سے صلاحیت کاحامل پورٹ ہے اس پورٹ سے بین ا لاقوامی بحری اور زمینی تجارت کے وسیع مواقع میں اضافہ اور ترکی کے راستے یورپ سے منسلک ہونا خاص طور پر علاقائی ترقی و تعاون میں اضافے کا حامل امر ہے نیز علاقائی تعاو ن اور مشترکہ ترقی کے مقصد کا حصول جنوبی ایشیاء اور وسط ایشیاء میں زمینی رابطوں میں اضافہ اور وسعت کے ساتھ نئے امکانات کی تلاش کی بھی ضرورت ہے ۔دیکھا جائے تو وسطی او رجنوبی ایشیاء کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی نمایاں صلاحیت کے باوجود فی الحال ان خطوں میں روابط کی وہ سطح نہیں جو خطے کی ضرورت ہے امر واقع یہ ہے کہ تیز رفتار عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیاء ایک ایسے نازک موڑ پر ہیں جہاں ان کو تعاون کے جس درجے کی ضرورت ہے وہ وہاں پر نظر نہیں آتے بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی نمایاں صلاحیت کے باوجود اس وقت ان خطوں میں اقتصادی تعلقات کی نوعیت ابھی کافی کمزور اور وسعت طلب ہے جسے بڑھانے کے لئے مختلف سطح پر روابط میں اضافہ اور خاص طور پر زمینی و تجارتی روابط کومزید ترقی دینا ناگزیر ہے ۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کے وسیع تر ضرورت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے درمیان گزرتے وقت کے ساتھ تعاون میں وسعت کی کی گنجائش اور مواقع سے فائدہ مزید اٹھانے کا عمل تسلسل و اضافہ کا متقاضی ہے البتہ اس راہ کی جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ اپنی جگہ واقعی پریشان کن امر ہے پاکستان میں چینی ماہرین کو مسلسل دہشت گردی کانشانہ بنا کر اس تعاون کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی جو کوششیں جاری ہیں اگرچہ دونوں ممالک اور خاص طور پر چینی قیادت اس ضمن میں بہت برداشت اور تدبر کا مظاہرہ کرتا آیا ہے لیکن بہرحال چینی شہریوں کی سلامتی اور تحفظ کی ذمہ داری نبھانا پاکستان کی وہ ذمہ داری ہے جس پر سمجھوتہ کی گنجائش نہیںاس ضمن میں مزید اقدامات اور غلطیوں کے تدارک پرتوجہ لازمی ہے ۔ سی پیک کے منصوبوں کی ہر قیمت پر تکمیل اور اس کے ثمرات سے فوائد سمیٹنے کا وقت اگرچہ بہت قریب ہے لیکن اس کے باوجود تعاون میں وسعت اور اس کے ثمرات کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے اہم ہے جس پر توجہ اور کامیابی ہی استحکام کی دلیل اور ترقی کا راستہ ہے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمتی یادداشتوں کوعملی صورت میں کتنا وقت لگتا ہے یہ اہم نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے تعاون کی راہوں کی تلاش اور عملی اقدامات کا جاری عمل کامیابی و ترقی کی راہ ہے جس پردونوں ممالک مثالی تعاون کے ساتھ گامزن ہیں۔

مزید پڑھیں:  نفرتوں کے دھندے