ہمارا قانون سرشام سو جاتا ہے

دنیا میں انتظامی ترتیب دن کے چوبیس گھنٹے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن کام کرتا ہے ۔ اس لیے ان ممالک میں شہری ہر وقت قانون کے تحفظ میں ہوتے ہیں ۔ اصولی طور پر ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئیے ۔مگر عملاً ایسا نہیں ہے ۔ آپ رات کو حیات آباد کی طرف جاتے ہوئے بورڈ بازار کے سامنے سے گزریں ساری سڑک افغانستانی شہریوں نے ہتھ ریڑیوں لگا کر بند کردی ہوتی ہے ۔ یہ میں مین سڑک کی بات کررہا ہوں ۔ بورڈ بازار کے اندر تو شاید کبھی پاکستان کا قانون داخل ہی نہیں ہوا۔پھر جو لوگ ڈی ایچ اے ، ریگی ، پولیس کالونی اور خیبر روڈ کی طرف آتے ہیں وہ جب مین روڈ پر آتے ہیں تو روڈ کو الٹے ہاتھ سے آکر رکشوں اور دیگر گاڑیوں نے بند کیا ہوتا ہے ۔ یہی صورتحال یونیورسٹی روڈ نمبر١ کی ہوتی ہے جسے عام لوگ پلوسی روڈ یا زو روڈ کہتے ہیں ۔ اس کے داخلے پر واقع سڑک کو سوزوکیوں ، رکشوں اور پھلوں کے اسٹالوں نے بند کیا ہوتا ہے ۔ حالانکہ دس قدم پر ٹاؤن پولیس اسٹیشن ہے ۔ یہی صورتحال پشاور شہر کے دیگر علاقوں میں بھی ہے ۔ جہاں ہر فٹ پاتھ کو قبضے میں لیکر اس پر ریڑھیاں اور اسٹال لگائے گئے ہیں ۔ یہ سب کچھ سرعام ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کا وہاں سے گزرنا ناممکن ہوگیا ہے ۔ یونیورسٹی ٹاون کی طرف پھلوں کی دکانوں والوں نے سڑکوں پر دکانیں سجائی ہیں جو پارکنگ کے لیے مختص جگہ ہے اور اس مارکیٹ میں پشاور کی اشرافیہ اور افسران اعلیٰ خریداری کے لیے آتے ہیں ۔ شیر پاؤ ہسپتا ل کی ایمرجنسی کی طرف جانے والا پورا فٹ پاتھ لوگوں نے قبضے میں لیکر اس پر کاروبار شروع کیا ہے ۔ یہی حال اس فٹ پاتھ کے سامنے والے روڈ کا ہے جس پر ریڑھیوں اور اسٹال والوں کا قبضہ ہے اگر آپ کو وہاں سے کوئی دوائی لینی ہو تو آپ کہیں بھی گاڑی کھڑی نہیں کرسکتے ۔ ان غیر قانونی قبضہ گیروں کی وجہ سے ایمرجنسی میں جولوگ مریض لے کر ہسپتا ل آتے ہیں وہ شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ۔شیر پاؤ ہسپتال کے مین گیٹ کے سامنے لوگوں کی گزر گاہ کو بند کرکے اس جگہ کو ایک ایزی لوڈ والے کو دیا گیا ہے جس کی وجہ سے باامر مجبوری لوگوں کو گھوم کر سڑک پر سے گزر کر جانا پڑتا ہے ۔اگر مثالیں دی جائیں تو شاید دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں اور مثالیں ختم نہ ہوں مگر یہ سب اس سڑھے ہوئے معاشرے اور نظام کا وہ چہرہ ہے جو ہم روز دیکھتے ہیں اور وہ جو اختیار و اقتدار رکھتے ہیں وہ بھی دیکھتے ہیں اور ان کو اس میں خرابی نظر نہیں آتی اور وہ گھر جاکر سکون کی نیند سوتے ہیں ۔ یہ سب کچھ خود سے نہیں ہورہا ہے ۔یہ ایک کاروبار ہے جس کو لوگ چلا رہے ہیں اور حکومت اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرکے چلا رہے ہیں ۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو کل شام کو اپنی گاڑی لیکر ان علاقوں میں جاکر دیکھیں تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہمارے ہاں سر شام ہی قانون سو جاتا ہے ۔ بورڈ بازار اور اس کے سامنے اور پلوسی روڈ اور ہسپتال روڈ پر قانون سے کھلواڑ کرنے والے اسی فیصد افغانستانی باشندے ہیں ۔ جو پاکستان کے وجود اور قانون کو کسی بھی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہم اس قدر بے بس ہیں کہ ان کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی علاقہ غیر ہے ۔ یہ پشاور شہر کا حصہ ہے ۔ یہ سب کچھ سڑک کے اوپر ہورہا ہے ۔ جس سڑک سے قانون بنانے والے ، قانون نافذ کرنے والے اور فیصلے کرنے والے سب دن میں کم از کم دو مرتبہ گزرتے ہیں اور یہی لوگ سڑک پر کھڑے ہوکر ان لوگوں سے خریداری بھی کرتے ہیں ۔ کیا ہم اس شہر کو جنگل ہونے دیں یا اس کو دنیا کے دیگر شہروں کی طرح ترتیب میںلائیں ۔ اگر ہم نے اس کو جنگل ہی بنانا ہے تو پھر اس پر سالانہ اربوں روپے کیوں خرچ کررہے ہیں ۔ ہمارے حکمران ، افسران کبھی متحدہ عرب امارت کے شیخ کی لکھی ایک کتاب ہے وہ پڑھ لیں کہ صحراؤں کو کیسے دنیا کے امیر ترین اور باسہولت شہروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسی چند کتابیں سنگاپور ،ہانگ کانگ ، اور دہلی شہر کی تعمیر نو و تنظیم نو پر لکھی گئی ہیں وہ پڑھ لیں ان کے حالات بھی کچھ ہم سے مختلف نہیں تھے مگر انہوں نے شخصی کرپشن کو ترک کرکے شہروں کی ترقی کا انتخاب کیا اور آج ان کے شہر واقعی شہر ہیں ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ شہر پشاور کی تنظیم ترتیب صفائی اور ترقی پر مامور افراد کی تعداد سنگاپور، ہانگ کانگ ، تائیوان جیسے تین بڑے شہروں سے بھی کئی گنا زیادہ ہے ۔ مگر ان کی کارکردگی کو دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ہمارے شہر منشیات کے عادی افرا د سے بھر چکے ہیں ۔ دودھ سے لیکر
چپس تک دو نمبر یہاں بنتا ہے اور فروخت ہوتا ہے ۔اس پر انتظامی کنٹرول ختم ہوتا جارہا ہے ۔ دنیا میں جب شہر میٹروپولیٹن بننے کے عمل سے گزرتے ہیں تو ان پر بہت زیادہ محنت کی جاتی ہے۔خدمات سے لیکر سہولیات تک کو ممکن بنانے کے لیے نہ صرف سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے بلکہ منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے ۔لیکن جس پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہ ہے قانون کا نفاذ ہے ۔نیویارک ، سیول ، ٹوکیو ، جکارتہ ، استنبول وغیرہ میں بھی جرائم اور خرابیاں موجود تھیں لیکن قانون کے عملی نفاذ کے بعد یہ سارے شہر اب محفوظ ہوچکے ہیں ۔ ہمارے کراچی میں قانون کا نفاذ کچھ عرصے کے لیے نہیں ہوا جس کی وجہ سے اب تک اس شہر کی اصلی صورت بحال نہ ہوسکی ۔ پشاور شہر اب وہ پرانا پشاور شہر نہیں رہا ۔ اس کی آبادی میںکئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ شہر اپنے مضافات سے نکل کر اب دوسرے اضلاع تک پھیل چکا ہے ۔ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ نام نہاد افغان جنگ میں بطور بیس سٹیشن استعمال ہوا ہے اور ابھی تک اس سے اس گند کو صاف نہیں کیا گیا ۔ بلکہ گزشتہ کچھ عرصے میں گند پورے پاکستان سے جمع کر کے اس شہر میں لایا گیا ۔ یہ شہر غیر قانونی معدنیات اور منشیات کے خرید و فروخت کا مرکز بنا دیا گیا ۔ اور اس شہر میں غیر قانونی افغانستانی باشندوں کو وہ آزادی دی گئی ہے کہ اس کا تصور وہ افغانستان کے اندر بھی نہیں کرسکتے ۔ جان بوجھ کر اس کے اطراف میں علاقہ غیر بنا کر اس میں ہر دو نمبر دھندے اور کام کو جائز قرار دے کر اس کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اس کے اثرات سے یہ ابھی تک نہیں نکل سکا ۔ ایسے میں اس پر انتظامی کنٹرول کا موثر نہ ہونا اس کو مزید تباہی کے طرف لے کر جائے گا ۔

مزید پڑھیں:  حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا