گزشتہ کئی برس سے ملک میں عموماً اور صوبہ خیبر پختونخوا میں خصوصاً قدرتی گیس کی فراہمی کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے اور تو اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں گرمی کے موسم میں بھی گیس بعض علاقوں میں بالکل ناپید اور بعض حصوں میں کم پریشر کی وجہ سے عوام کی جوشکایات سامنے آئی ہیں ان سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے اس کے باوجود سوئی نادرن گیس کمپنی کے ایم ڈی کا یہ کہنا کہ سردیوں میں صرف کھانے کے اوقات میں گیس ملے گی ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، یہاں اگر ہم آئین کے متعلقہ دفعات کاحوالہ دے کر یہ کہیں کہ صوبے میں پیدا ہونے والی گیس پر ترجیحاً اسی صوبے کے عوام کا حق بنتا اہے جس کے حوالے سے چند برس پہلے پشاور ہائی کورٹ نے ایک رولنگ اس وقت دی تھی جب صوبے میں سی این جی ایسوسی ایشن نے عدالت سے رجوع کیا تھا ، جس کے بعد ایک آدھ سال تو صورتحال بہتر ریہ مگر پھر ان احکامات کو بھی ”جوتے کی نوک” پر رکھتے ہوئے وہی صورتحال پیدا کر دی گئی جو پہلے تھی اور جو اس وقت بھی ہے ،بدقسمتی سے اس صوبے کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد ہی سے زیادتیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ تھمنے ہی میں نہیں آتا ، پہلے ایک طویل عرصے تک پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی پر صوبے کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور سالانہ چھ ارب پر منافع کیپ کیاگیا بڑی مشکل سے اس حوالے سے صورتحال میں کچھ تبدیلی آئی مگر پورا منافع تاحال ادا نہیں کیا جارہا اور اس وقت بھی وفاق کے ذمے اربوں کے بقایاجات واجب الادا ہیں مستزاد یہ کہ جتنا کوٹہ صوبے کے حصے کے طور پر مقرر کیاگیا ہے وہ بھی پورا نہیں دیاجا رہا ہے اور صوبے پر ”بجلی چوری” کے ا لزامات کی آڑ میں ہمیں اپنی ہی بجلی سے محروم رکھا جارہا ہے رہ گئی گیس توآئین کی کس شق کے تحت یہاں سے حاصل ہونے والی گیس پر بھی پن بجلی کی طرح قبضہ کرکے اسے ترجیحی بنیادوں پر پہلے پنجاب کو فراہم کی جاتا ہے اور بچ جانے والی ”اونٹ کے منہ میں زیرہ” کے مصداق گیس خیبر پختونخوا کو گرمی کے سیزن میں بھی فراہمی پر سو طرح کی قدغنیں لگائی جاتی ہیں اور جب گرمی میں بھی پوری تو کیا عشر عشیر برابر گیس بھی نہیں دی جاتی تو سردی میں ”صرف کھانا پکانے” کے اوقات میں گیس کی فراہمی کا بیان ایک سنگین مذاق کے سوا کیا ہوسکتا ہے ؟ ۔