اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کا لگ بھگ آٹھ ارب ڈالر کا مقروض ہے جو کہ اکیس کھرب روپے سے بھی زیادہ بنتے ہیں، اور آئی ایم ایف کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں ہمارا پانچواں درجہ ہے، جبکہ ایشیائی ممالک میں آئی ایم ایف کے قرضوں کے حساب سے ہم پہلے درجے پر ہیں، اسی طرح اسٹیٹ بینک پاکستان کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق حکومت پاکستان کا مقامی قرض تریالیس ہزار ارب روپے ہے، اللہ جانے کہ یہ کتنے کھرب ہیں مجھ سے تو یہ حساب نہیں ہو سکا، اس درجے مقروض ملک کو آئی یم ایف سے حال ہی میں کچھ اور قرض بھی ملا ہے اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے حکمران قرض ملنے پر خوشیوں کے شادیانے بجاتے ہیں کیونکہ یہ پیسہ ان کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے، وفاقی اور پنجاب حکومت اربوں روپے کی نئی قیمتی گاڑیاں خرید رہی ہے، مفت پٹرول، مفت بجلی، مفت گیس اور دیگر بے شمار مراعات ہمارے حکمران اپنا حق سمجھتے ہیں، اسمبلیوں کے بے مقصد اجلاسوں پر قوم کا اربوں روپیہ لٹایا جاتا ہے، دوسری جانب عوام کے لئے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مہنگی خوراک، مہنگی گیس و بجلی اور مہنگی جعلی ادویات، کون نہیں جانتا کہ بجلی کے بلوں پر غریب نہیں بلکہ متوسط طبقہ خصوصاً تنخواہ دار بلبلا رہے ہیں، غیر معیاری آٹے کی جان لیوا تقسیم پر چوراسی ارب کا خرچ ہوا جس میں بیس ارب کی چوری ہوئی، صرف پنجاب کی اسمبلی ایک سال میں تقریباً دس کروڑ روپے شاہی خرچیوں میں اڑا دیتی ہے، یہ بھوکے ننگے غربت کے مارے خون آشام ارکان پنجاب اسمبلی ایک سال میں تین کروڑ روپے کا گوشت کھا جاتے ہیں، پچاس لاکھ روپے کا بیکری کا سامان ہڑپ کر جاتے ہیں، تین لاکھ کی سبزیاں اور تراسی لاکھ روپے کا فروٹ کھاجاتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ملتی ہو، اور کیا کسی بھی طرح سے یہ روا ہے کہ اس درجے قرض میں ڈوبا ہوا ملک جس کی بھاگ دوڑ ایسے نالائق اور خود غرض حکمرانوں کے ہاتھ میں ہو وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کرے اور اس میں غریب ملک کا مزید اربوں روپیہ برباد کرکرے، قارئین کرام شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد سال ٢٠٠١ء میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، بھارت اور ایران بھی شامل ہیں، روس ، چین اور بھارت جیسے بڑی آبادی والے ممالک کی وجہ سے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے چالیس فیصد کی نمائندگی کرتی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تنظیم کی بنیاد جن مسائل کے خاتمے کے لئے رکھی گئی تھی ان میں سب سے پہلے خطے کا امن اور استحکام شامل تھے، اس کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ، منشیات کی غیر قانونی نقل و حمل اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل کا خاتمہ بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا، حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا تئیسواں اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا گیا جس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، اور تاجکستان کے وزرائے اعظم نے شرکت کی، اس کے علاوہ ایران کے نائب صدر اور بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی شرکت کی، منگولیا کے وزیر اعظم بطور مبصر اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ خصوصی مہمان کے طور پر اس اجلاس میں شریک ہوئے، پاکستان عالمی سطح پر صرف اس تنظیم کا ہی رکن نہیں بلکہ اور بھی کئی عالمی تنظیموں میں شامل ہے جس میں اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم اہم ہیں، اقوام متحدہ میں پاکستان کبھی بھی کشمیر کے مقدمے کا دفاع کر سکا ہے اور نہ ہی نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی کوئی مدد کر سکا ہے، اسی طرح پاکستان کی عالمی سطح پر ایسی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ وہ اسلامی تعاون تنظیم میں فلسطین کے مظلوم اور بے بس مسلمان بھائیوں کے لئے کبھی کچھ کر سکتا، کیونکہ ہمارے قابل وزیر اعظم نے ایک بار ارشاد فرمایا تھا کہ بھیک مانگنے والے کبھی اپنی مرضی نہیں کر سکتے، سوال یہ ہے کہ کیا شنگھائی تعاون تنظیم کے اس حالیہ اجلاس میں روس اور بھارت کے اعلیٰ درجے کے وفود کی موجودگی میں پا کستان نے یا کسی اور ملک نے یوکرین یا کشمیر کے عوام کے لئے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھایا ہے، کیا کسی میں اتنی ہمت تھی کہ وہ فلسطین کے بے بس اور لاچار مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لئے کچھ کر سکتا، شنگھائی تعاون تنظیم کا تو مقصد ہی دیرپا اور دائمی امن کا قیام ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہے اور مزے کی بات ہے کہ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کی، نہ پاکستان نے اور نہ ہی بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شریک وفود کی الگ سے کسی بھی ملاقات کی خواہش کا سرے سے اظہار ہی نہیں کیا، بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے تو اپنے خطاب میں بڑی وضاحت سے یہ تک کہہ دیا کہ وہ کسی بھی دہشت گرد ملک کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت اور مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے، ما شاء اللہ کیا عزت افزائی ہوئی ہے، ایک ایسی حکومت جو ایسے انتخابات کی پیداوار ہے کہ جس کی شفافیت پر نہ صرف پاکستان کے سنجیدہ طبقے نے سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں بالکل عالمی مبصرین نے بھی ان انتخاب کو جعلی قرار دیا ہے، ایسی کمزور اور لاچار حکومت سے اسی کی توقع تھی، اب پڑھیں کہ ہمارے قابل وزیر اعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرمایا، جی حضوری کے ماہر وزیراعظم نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اجلاس میں رکن ممالک نے اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر اور پائیدار مستقبل کے لیے مشترکہ عزم کو اجاگر کیا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کی جانب سے مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، اچھے لطیفے ہیں، بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہے اور مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، مزید فرمایا کہ ہمیں اپنے باہمی تعلقات کو سیاسی اختلافات سے بالاتر رکھتے ہوئے مشترکہ مشکلات کو حل کرنے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے عوام کے باہمی مفاد، ترقی اور استحکام کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا، جناب اول تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی آپ سے بات کرنا نہیں چاہتا اور جب آپ بات کرنا چاہتے ہیں تو کوئی سنتا نہیں ہے، موصوف نے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ ہم غزہ میں جاری حالیہ نسل کشی کو نظر انداز نہیں کر سکتے، موصوف یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اگر کسی نے غزہ کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو ہم اس کی اجازت بھی نہیں دیں گے اور اگر کسی نوجوان نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ہم ڈی چوک میں ان پر گاڑی چڑھا کر ان کی جان بھی لیں گے، دوسری جانب جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران ان کے اجلاس بھی جاری رہے اور تیسری جانب پہلے بھارتی صحافی برکھا دت اور پھر پورا بھارتی وفد اپنے دیرینہ دوست اور خیر خواہ نواز شریف کے ساتھ بھی ملاقاتوں میں مصروف رہا۔