زراعت کوتو سیاسی نہ بنائیں

صوبائی حکومت نے پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے صوبے کے مختلف اضلاع میں زعفران کی کاشت کے لئے 3سالہ پراجیکٹ شروع کرنے کی منصوبہ بندی حوصلہ افزاء امر ہے صوبائی وزیر زراعت کے مطابق زعفران کی کاشت کیلئے 16اضلاع کا انتخاب کیا گیا ہے اور سات ریسرچ سنٹرز کی نشاندہی کی گئی ہے متعلقہ ایم پی ایز کے ذریعے ہی زعفران کی کاشت شروع کی جائے گی93ایکڑ اراضی پر زعفران کی کاشت کے لئے معیاری تخم کے حصول میں مشکلات اپنی جگہ توقع ہے کہ اس کا حل نکال لیا جائے گا لیکن اس خالص تحقیقی عمل اور زراعت سے متعلق امر میں بھی ممبران اسمبلی کو شامل کرنے کا اقدام اسے سیاسی بنانے کے ساتھ ساتھ اعتراضات اور الزامات کا بھی شکار بنانے کا باعث بن سکتا ہے یہ خالص آزمائشی وہ تحقیق و تجربے کا کام ہے جسے ماہرین پر کلی طور پر زراعت کے حوالے کرنا مفید ہوگا امر واقع یہ ہے کہ صوبے کے بعض اضلاع میں پہلے ہی سے زعفران کی آزمائشی کاشت کے تجربات کامیاب ثابت ہوچکے ہیں ایران سے لائی گئی زعفران کی تخم کی صوبے کے ٹھنڈے اضلاع میں کاشت کامیاب ثابت ہوئی یہ معلوم نہیں کہ صوبائی حکومت کو ہمسایہ ممالک سے تخم کے حصول میں کیوں مشکلات کا سامنا ہے بہرحال اس سے قطع نظر سرکاری سطح پر اسکی کاشت کی حوصلہ افزائی کا تقاضا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے طور پر اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے اور کوشش ہونی چاہئے کہ حکومت زعفران کی تخم عام کا شتکاروں اور دلچسپی رکھنے والے افراد کو مناسب نرخوں پر موسم کے مطابق فراہمی یقینی بنائے تاکہ صوبے میں زعفران کی کاشت ہو اور کاشتکار اس نفع آور فصل سے مسلسل فائدہ اٹھائیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں ایک شفاف عمل کا آغاز ہو گا جس کے نتیجے میں صوبے میں زعفران جیسی نقد آور فصل کی بڑے پیمانے پر کاشت و تیاری شروع ہو گی۔

مزید پڑھیں:  آلودگی سے جینا محال