جس کی سب کو خبرتھی وہی ہوا ۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ فوجی کاروائی اسرائیل نے اسلامی ایران کے چار شہروں میں موجود20کے قریب فوجی اڈوں پر تل ابیب کے وقت کے مطابق ہفتے کے دن صبح دو بجے، تہران کے وقت کے مطابق صبح صادق پانچ بجکر تیس منٹ اور اسلام آباد کے وقت کے مطابق صبح کاذب چار بجے شروع کی گئی ۔ ایران کے مرکزی دارالحکومت کے مغرب میں خرج، مغرب میں ہی خوزستان ، الام اور کردستان ، جنوب میں اصفہان اور شیراز اور مشرق میں مشہد کے شہروں میں موجود ڈرون و زمین سے فضا میں فائر کیے جانے والے میزائلوں اور بلاسٹک میزائلوں کے خفیہ اڈوں کے مقامات پر یہ کارروائی کی گئی ۔تہران کے ساتھ خرج میں واقع اسلامی انقلابی گارڈ کے ہیڈ کوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا ۔اسرائیل کے فوجی ترجمان نے تل ابیب کے وقت کے مطابق صبح دو بجکر تیس منٹ پر ہی ایک سرکاری اعلامیہ میں بتا دیا تھا کہ اسرائیل ایران کے اندر کچھ اہم فوجی تنصیبات پر ایک محدود فوجی کاروائی کر رہا ہے جو کہ ایران کے یکم اکتوبر کے میزائل حملوں کے جواب میں ہیں ۔اس کا مقصد ایران کی اسرائیل پر میزائل و ڈرون حملوں کی صلاحیت کو محدود کرنا ہے ۔دوسرے اسرائیلی اعلامیہ کے مطابق جو کہ صبح چھ بج کر تیس منٹ پر اور پاکستان کے وقت کے مطابق آٹھ بج کے تیس منٹ پر آیا ،اسرائیلی ترجمان نے بتایا کہ اسرائیل نے ایرانی حملوں کے جواب میں اپنی فوجی کارروائی مکمل کر لی ہے اور اگر اس کے بعد ایران نے پھر کوئی جوابی کارروائی کی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا ۔اسی دوران ایرانی میڈیا نے ان حملوں سے ہونے والے نقصانات کو بہت ہی غیر تباہ کن قرار دیا اور معمولی نقصانات کا اعتراف بھی کیا ۔ایران کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ اسرائیل نے تہران خوزستان اور الام کے علاقوں میں فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ ایرانی انقلابی گارڈز سے وابستہ تسنیم نیوز ایجنسی نے ایرانی حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایک جوابی کارروائی پھر کی جائے گی اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ایران کے بڑے ہوائی اڈے جو جمعہ کے دن سے ایئر ٹریفک کے لیے بند تھے اس اسرائیلی حملے کے اختتام کے بعد تہران کے وقت کے مطابق صبح نو بجے اور پاکستان کے وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے اور تل ابیب کے وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے بین الاقوامی ایئر ٹریفک کے لیے کھول دئیے گئے۔ یہ اس اعصاب شکن انتظار کے بعد ہونے والی اسرائیل کے چار گھنٹوں کے ایکشن کی تفصیلات ہیں جو اب تک منظر عام پر آئی ہیں جن میں اسرائیل کے یروشلم پوسٹ، ٹائمزآف اسرائیل ، العربیہ، الجزیرہ ، رائٹرز، بی بی سی اور سی این کے خبری مراسلوں سے مدد لی گئی ہے۔ ایران پر حملے کے وقت عراق میں بصرہ کے جنوب میں ، شام کے مرکزی و جنوبی علاقوں میں دمشق کے ساتھ ایران کی حامی ملیشیا اور فوجی اڈوں پر بھی ڈرون حملے کیے گئے ہیں جن کی اسرائیل کی طرف سے تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔ اب تھوڑا سا مڑ کر یکم اکتوبر سے26 اکتوبر تک ہونے والی سفارتکاری کو ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 200کے قریب ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کی تل ابیب اور اسرائیل کے سرحدی شہروں پر یکم اکتوبر کو بارش کے بعد اسرائیل کا لب و لہجہ ا نتہائی سخت تباہ کن اور قابو میں نہ آنے والا تھا15 اکتوبر تک اسرائیل کی یہی رٹ رہی کہ وہ ایران کی تیل وایٹمی تنصیبات اور فوجی اڈوں سب پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے یہ حملہ ایران کیلئے بڑا دکھا دینے والا ہوگا اور اس کے بعد ایران سنبھل نہیں سکے گا ۔پھر اچانک امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کا مشرق وسطی کے جنگ فریقوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اسی دوران ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس آگارچی اکتوبر کے شروع کے دو ہفتوں میں لبنان، اردن ، شام، سعودی عرب ، قطر، بحرین، عمان، مصر اور ترکیہ کے دورے پر جاتے ہیں۔ اس دورے کا مقصد اسرائیل کی فوجی کاروائی کو روکنا اور مشرق وسطی میں غزہ اور لبنان کی جنگ بندی کرانا اور اس جنگ کا دائرہ وسیع ہونے سے روکنا تھا۔ گزشتہ بدھ کو اپنے گیارہویں مشرق وسطی کے ہنگامی دورہ کے اختتام پر امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے بڑا معنی خیز بیان دیا کہ” اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایسی کارروائی کرے جس سے مشرق وسطی میں لڑائی کا دائرہ وسیع نہ ہو ۔” اس سے قبل امریکی صدر بایئڈن نے بارہا اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اپنا ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے کا ارادہ تبدیل کر دے اور صرف فوجی اھداف کو نشانہ بنائے ۔تقریبا یہی بات ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک ترجمان نے پچھلے ہفتے ایک پریس کانفرنس میں کہی تھی کہ اگر ایران کو محدودنشانہ بنایا جاتا ہے تو ایران اس کے جواب میں کوئی جوابی فوجی کاروائی اسرائیل کے خلاف نہیں کرے گا ۔اس تمام رپورٹ ہونے والی سفارت سفارتی کارروائی کو اگر بغور دیکھا جائے تو سمجھ آتی ہے کہ ایران کے مشرق مغرب اور جنوب میں کچھ ایرانی فوجی اڈوں پر کارروائی کا مقصد اور اس کے ساتھ ساتھ ایران کے حامی گروپوں اور فوجی اڈوں پر عراق اور شام میں بیک وقت اسرائیلی ڈرون حملوں کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اسرائیل کی کارروائی ایران کی کارروائی کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع علاقے میں کی گئی ہے اسرائیل کی اپنی اطلاعات کے مطابق ایران میں ہونے والی کاروائی میں 140 سے زیادہ اسرائیلی ایئر فورس کے جہازوں نے حصہ لیا اور اسرائیل کی ملٹری نے ڈرونز کا استعمال بھی کیا کسی جنگ زدہ ملک میں کسی دشمن ملک کے 140 جہازوں کا داخل ہونا اور بغیر کسی نقصان کے اپنے اڈوں پر واپس چلے جانا اور پھر اس کارروائی میں معمولی نقصان کا اعتراف حملے کی زد میں آنے والی ریاست کی جانب سے کیا جانا اس بات پر دلیل نظر آتی ہے کہ شاید یہ ایک طے شدہ فوجی کارروائی تھی جس میں کچھ عرب ریاستوں نے اسرائیل اور امریکہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے دونوں متحرب ملکوں ایران اور اسرائیل کو اپنے چہرے چھپانے کا ایک موقع فراہم کیا ۔ ایران میں فوجی کارروائی کے صرف چند گھنٹوں کے بعد تہران و دیگر ایئرپورٹوں کو ہر قسم کے بین الاقوامی ایئر ٹریفک کے لیے کھول دیا جانا اس بات کا غماز ہے کیا اب ایران ممکنہ طور پراسرائیل کے خلاف کوئی فوجی ایکشن نہیں لے گا ۔ممکن ہے کہ غزہ اور جنوبی لبنان میں اس کے بعد جنگ بندی کی کسی تجویز کی جانب بڑھا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے بعد ایران اپنی مڈل ایسٹ کی حکمت عملی میں کوئی اہم تبدیلی لائے اور یہ بھی یقینی سا لگتا ہے کہ آخر کار ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کے خون و قربانیوں پر اسرائیل کی ریاست کی سرحدیں مزید پھیل جائیں گی ۔