پشاور شہر مسائل کا شکار ہے ۔ اس کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔اس کی سڑکیں ٹریفک کیلئے تنگ پڑ گئی ہیں ۔ افغانستانی لاکھوں شہریوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ یہ شہر صوبہ بھر اور افغانستان کے معدنیات ، منشیات ، اسلحہ اور دیگر ممنوعہ اشیاء کی منڈی ہے ۔ یہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں سمگلر بستے ہیں ۔ اس شہر میں بے ترتیبی بھی اپنے عروج پر ہے ۔ یہاں روز جتنے قتل ہوتے ہیں اتنے شاید پورے ناروے اور ڈنمارک کی تاریخ میں نہیں ہوئے ۔ شہر کے اطراف میں جو آبادیاں ہیں وہاں قانون نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی ۔ صوبہ بھر سے لوگ رہائش ، تعلیم اور قسمت آزمانے کیلئے اس شہر کا انتخاب کرتے ہیں ۔ افغان جنگ میں اس شہر کو کنٹرول روم کا درجہ حاصل رہا ہے ۔ افغانستان کے پراکسی وار اب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ اس شہر میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہیں ، کھیلوں کے میدان ہیں ، باغات ہیں ، تجارتی مراکز ہیں ، دینی مدرسے ہیں اب تو اس کے اطراف میں جدید ہاؤسنگ کالونیاں بھی بن گئی ہیں ۔ لیکن شہر کا اگر ایسا مسئلہ اٹھا کر دیکھا جائے جس نے اس کے چہرے کو مسخ کررکھا ہے اور پوری دنیا میں اس کو بدنام کررکھا ہے ۔تو وہ مسئلہ یہاں منشیات کے عادی افراد اور منشیات کے کھلے عام استعمال کا ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس شہر کو منشیات استعمال کرنیوالوں کے جنت کے طورپر دیکھا گیا ہے ۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ افغانستان ہے جہاں دنیا کی دو قسم کی منشیات سب سے زیادہ پیدا ہوتی ہیں اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ نوے فیصد پشاور کے راستے ہی ہوتی ہے ۔ یہ منشیات افغانستان سے پشاور آکر یہاں سے پاکستان بھر اور دنیا میں سمگل کی جاتی ہے ۔ اس کے بڑے بڑے سمگلر اس شہر کے پوش علاقوں میں آسانی کے ساتھ رہائش اختیار کرتے ہیں ۔ اور اس شہر میں ان سمگلروں کو چند ہزار روپوں کے عوض مرد اور خواتین دستیاب ہوتی ہیں جو ان کی منشیات کو پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک پہنچانے میں ان کی مدد
کرتے ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ منشیات کے اس دھندے کو چلانے کیلئے یہاں جو مقامی منشیات کے عادی افراد ہیں ان کا استعمال بھی کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اس شہر میں وقت کیساتھ ساتھ نشئیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے جب موجودہ کمشنر پشاور ریاض محسود پشاور کے کمشنر تھے تو انہوں نے ان منشیات کے عادی افراد کو علاج کے لیے گلی گلی اور بازار بازار سے پکڑ پکڑ کر مختلف ری ہیب سینٹروں میں بھیجا جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یہ منشیات کے عادی صحت مند ہوکر اپنے اپنے علاقوں اورگھروں کو چلے گئے تھے ۔ کمشنر پشاور ریاض محسود کا تبادلہ ہوگیا اور پشاور شہر میں پھر سے ہر جگہ منشیات کے عادی نظر آنے لگے ۔ اور ان منشیات کے عادی افراد نے اس مرتبہ شہر کی شکل بدل کر رکھ دی کیٹ آئیز سے لیکر شہر کے سارے جنگلے اور لوہے کی ہر شے اکھاڑ کر لے گئے ۔ جس سے شہر کی رہی سہی خوبصورتی بھی ختم ہوگئی اور یہ وباء اس حد تک بڑھ گئی کہ اس کی روک تھام پولیس کے بس سے بھی باہر ہوگئی ۔ یہ نشئی سرکاری عمارات اور دفاتر اور سڑکوں پر موجود سرکاری اشیاء کو ٹارگٹ کرتے تھے ۔ساتھ ساتھ کسی بھی باتھ روم اور وضوخانہ میں کوئی نلکا اور پائپ بھی ان سے محفوظ نہیں تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ چند ماہ میں یہ لوگ شہر کی ساری اینٹیں بھی اکھاڑ کر لے جائیں گے ۔ اس پر ہم نے کئی مرتبہ کالم بھی لکھے ۔ مگر پھر حکومت کو ہوش آیا اور ریاض محسود کو دوبارہ پشاور کا کمشنر بنوا دیا گیا۔ انہوں نے آتے ہی اپنے پرانے مشن کو دوبارہ شروع کیا اور اس مرتبہ انہوں نے گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ تیاری اور محنت سے منشیات کے عادی افراد کے بحالی کا پروگرام بنایا ہے ۔ منشیات کی یہ لعنت شہر کے تعلیمی اداروں میں پھیل چکی ہے اس لیے انہوں نے اس کا آغاز تعلیمی اداروں سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پورے پشاور شہر سے چار ہزار کے قریب نشے کے عادی افراد کو مختلف ری ہیب سینٹروں میں منتقل کیا جائیگا ۔ اور وہاں ان کو صحت مند ہونے تک رکھا جائیگا ۔ اس مرتبہ ان کو ہنر سکھانے کا بھی انتظام کیا جائیگا۔ اس مرتبہ ایک پوری مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ سکول ، کالجوں اوریونیورسٹیوں کے بچوں کو منشیات کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے اور اس کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کئے جائیں ۔ اس سلسلے میں ان کیلئے کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنا اور نفسیات کے ماہرین کے لیکچر اور ایسے سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں جن میں مشغول ہوکر طالب علم منشیات سے دور رہ سکتے ہیں ۔یہ تو ایک پہلو ہے دوسرا پہلو ہے منشیات کی رسائی کو مشکل تر بنانا ۔ اس مقصد کیلئے ملک بھر میں اے این ایف یعنی اینٹی نارکوٹکس فورس ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس خیبر پختونخوا اور پولیس کا محکمہ کام کررہے ہیں ۔ اگر یہ تینوں ادارے ایک دوسرے کیساتھ ملکر اس لعنت کیخلاف کام کریں تو ان کو خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے ۔ اس لیے کہ ان تینوں کے پاس افرادی قوت بھی موجود ہے اور وسائل بھی ہیں ۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کے پاس چونکہ زیادہ اختیارات ہوتے ہیں اس لیے وہ سرحدوں سے منشیات کے داخلے اور مقامی طور پر بننے والے منشیات کو زیادہ آسانی کیساتھ پکڑ سکتی ہے ۔ منشیات کے سمگلرز کسی سے
چھپے ہوئے نہیں ہیں ہر علاقے کے بچے بچے کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون منشیات کے کاروبار سے وابستہ ہے ۔ یہ لوگ جو مہینوں میں کروڑ پتی بن رہے ہیں جن کے پاس درجنوں گاڑیاں اور گھر آرہے ہیں ۔ یہاں صرف منشیات کی سمگلنگ اور کاروبار سے ہی ممکن ہیں ۔ مگر ان کو یہ ادارے کچھ نہیں کہتے ۔ پھر منشیات کے کیسوں میں پیروی بہت زیادہ کمزور ہے اور عدالتیں بھی اس سلسلے میں شک کا فائدہ دے کر ان کو رہا کردیتی ہیں جس سے یہ لوگ حوصلہ پا کر دوبارہ یہ کام اور زیادہ شدت کیساتھ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ حکومت کو اپنی قانون سازی کو زیادہ جامع بنانے کی ضرورت ہے اور ادارو ں کو جدید خطوط پر تفتیش اور تحقیق کو مد نظر رکھ کر اس مقصد کیلئے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہئیے ۔کمشنر پشاور نے تو اپنے حصہ کا کام کردیا ہے لیکن معاشرے میں جو لوگ ہیں ان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور ان منشیات فروشوں کو بے نقاب کرنا چاہئیے ۔ اور ساتھ ہی اپنے بچوں پر نظر بھی رکھنی چاہئیے اس لئے کہ آج کل منشیات خاص کر آئس کا نشہ نوجوانوں میں بہت زیادہ بڑ ھ رہا ہے اور چونکہ آئس مقامی طور پر بنائی جاتی ہے اور بہت ہی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہے اس لئے مقامی طور پر اس کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔آئس استعمال کرنیوالے جرائم کی طرف بہت زیادہ راغب ہوتے ہیں ۔ خاص کرطالب علم آئس کا نشہ کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ کمشنر پشاور کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ضلع خیبر میں بننے والے اس آئس نامی نشے کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں اور دوسرے اداروں کو کس طرح ساتھ لیکر چلتے ہیں ۔ پشاور شہر سے اگر وہ تمام نشے کے عادی افراد کو پکڑ کر ری ہیب سینٹروں میں لے جاتے ہیں تو اس سے پشاور شہر کی ایک بڑی بدصورتی دور ہوجائیگی اور یہاں صحت مند معاشرہ بننا شروع ہوجائیگا ۔ اس شہر کو ہمیشہ قاتل ہی ملے ہیں ۔ یہ مسیحا اس دور میں غنیمت ہے ۔ لوگوں کو اس کی مدد کرنا ہوگی ۔ورنہ یہ شہر پھر سے ان نشے کے عادی افراد کے ہاتھوں تباہی دیکھے گا۔
Load/Hide Comments