تجارتی رکاوٹیں

ایف بی آر نے خیبرپختونخوا کی جانب سے برآمدات پر2فیصد ٹیکس لگانے کی مخالفت کردی ہے۔ ایف بی آرکاکہنا ہے کہ صوبہ کی طرف سے ٹیکس لگانے سے برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ پختونخوا کے مختلف بارڈر پوائنٹس سے افغانستان کو برآمدات ہوتی ہیں، برآمدات پر ڈیوٹیز یا ٹیکس لگانے سے ایکسپورٹس پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، اس سے پاکستان کے لئے فارن ایکسچینج کی ترسیل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، درآمدات یا برآمدات پر ٹیکس لگانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ دوسری جانب تفتان ایران کی سرحد پر تعینات کسٹم حکام نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بیکنگ چینل موجود نہ ہونے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت 17 اکتوبر سے بند ہے صرف ایران کیساتھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کی سرحد پر افغانستان کے ساتھ بھی تجارت بند ہو گئی ہے اور پھلوں ،سبزیوں اور دیگر اشیاء سے لدے ٹرک سرحد پر کھڑے ہیں اور تاجروں کا مال خراب ہو رہا ہے اور تجارت بند ہے اس کے علاوہ ایل پی جی گیس لانے والے ٹینکرز بھی سینکڑوں کی تعداد میں پھنسے ہیں اگر یہ پابندی جلد ختم نہ کی گئی تو ملک میں ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور خدانخواستہ کسی بڑے حادثے کا بھی خطرہ ہے کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر کے مطابق یہ بحران بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حکم امتناعی واپس لینے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی حکومت نے2016میں پہلی دفعہ ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے بینکنگ چینلز کے ذریعے ادائیگیوں کو لازمی قرار دیاچونکہ ایران پر عالمی پابندیاں ہیں اس لیے بینکنگ چینل کے قیام تک تاجروں کو ریلیف کی ضرورت ہے تاکہ ہماری درآمدات اور برآمدات متاثر نہ ہوں۔ ہائیکورٹ نے اس پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے تاجروں کو بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے ذریعے مال اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے تجارت کی اجازت دے دی تھی۔امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں توازن نہیں۔ پاکستان سے ایران کے لیے ایکسپورٹ کم اور ایران سے امپورٹ زیادہ ہیں، اس میں کھربوں روپے کا فرق ہے اس لیے بارٹر ٹریڈ میں بڑی مشکلات ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ساری تجارت بغیر ڈالر کے ہو رہی تھی جس سے ملک کو فائدہ ہو رہا تھا اس کے علاوہ بلوچستان سے سرحدی تجارت سے ایف بی آر سالانہ 130ارب روپے ٹیکس جمع کرتا ہے سرحدی تجارت متاثر ہونے سے ٹیکس کی مد میں حکومت کو بھی بھاری نقصان ہو گا۔خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے طور پر ٹیکس عاید کرنے سے قبل اس کے قانونی و تجارتی اور کاروباری فوائد و نقصان کا ضرور جائزہ لیا ہوگا اس کا اپنا موقف ہو گا جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کا اپنا نقطہ نظر ہے بہرحال معاملہ چونکہ ملکی معیشت کا ہے بنا بریںاس اقدام سے قبل مشاورت ہونی چاہئے تھی بہرحال اب تک اس حوالے سے ایف بی آر کا ہی موقف سامنے آیا ہے بنا بریں صوبائی حکومت کے موقف کا انتظار ہے لیکن بہرحال اس اقدام سے چونکہ معیشت و تجارت متاثر ہو رہی ہے اس لئے اس حوالے سے جلد اور مفاہمانہ طرز عمل ہر دو فریقوں کی ذمہ داری ہے جس میں نہ تو تاخیر کی گنجائش ہے اور نہ ہی لیت و لعل کی مشکل امر یہ ہے کہ ایک صوبے کی سرحدہی پر اس طرح کی صورتحال نہیں بلوچستان میں بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت کے مسائل ہیںجس سے ملکی تجارت متاثر ہو رہی ہے تجارت کا عدم توازن تو بہرحال ہمارا مستقل مسئلہ رہا ہے اس ضمن میں پہلے سے مروجہ طریقہ کار کی بحالی ہونے کی صورت ہی میں مسئلے کا وقتی حل نکل سکتا ہے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔پاکستان کے تناظر میں، علاقائی ریاستوں کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے، اور جنوبی ایشیا اب بھی دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں سے ایک ہے ۔ درحقیقت، تجارت ریاستوں کو قریب لانے اور تنائو اور تنازعات کو کم کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہو سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کے معاملے میں، وسیع تر علاقائی تجارت کی راہ میں صرف ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کی راہ میں رکاوٹیں نہیں بلکہ سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان کے ساتھ اس کے طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات ہیں۔جن سے 2019ء سے تجارت معطل ہے اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت تجارتی تعلقات کو بہتر کریں تو بہتر دوطرفہ تعلقات ہر میدان میں ترقی کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کو اپنے معاشی مفادات کے لیے بھارت، افغانستان، ایران اور دیگر تمام علاقائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے۔ بھارت کے حوالے سے جب کہ دہلی پاکستان سے گزر کر وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔نیز تجارتی تعلقات کی بحالی بہتر دوطرفہ تعلقات کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  مسلم اشرافیہ، کمال اظفر اور ''صبح آزادی ''