حکومت اور سیاسی جماعتوں کو کیا پڑی ہے؟

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت بجلی بلوں پر عوام کو فوری ریلیف دے، پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں کم ازکم 85روپے کمی کی جائے۔ مفادات کے لئے آئین میں ترمیم اور عدلیہ پر قبضہ جمانے کیلئے ساری سیاسی پارٹیاں بالواسطہ یا بلاواسطہ اکٹھی ہو جاتی ہیں عوام کے لئے کوئی بات نہیں کرتا معیشت میں بہتری کے حکومتی دعوے حقائق کے برعکس ہیں، ہرسال 16 ہزار نوجوان بیروزگار ہورہے ہیں40.5 فیصد عوام خط غربت سے نیچے ہیں، لوگوں میں اشیاء خورونوش خریدنے کی سکت نہیں،بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں کم نہیں ہورہیں، نجانے وزیراعظم نے بہتری کے اعدادوشمار کہاں سے لئے؟ہر دوسرا شخص بھی یہی سوال کر رہا ہوتا ہے کہ حکومت مہنگائی میں کمی آنے کے جو دعوے کر رہی ہے اور اعداد و شمار پیش کر رہی ہے عملی طور پر وہ بازاروں اور منڈیوں میں نظر کیوں نہیں آتی اور تقریباً کسی چیز کی قیمت میں بھی کمی کیوں نہیں آئی مشکل صورتحال یہ ہے کہ جملہ سیاسی جماعتیں اقتدارکی جدوجہد میں تو پوری طرح سرگرمی کا مظاہرہ کرتی ہیں جلسے جلوس بھی ہوتے ہیں اور احتجاج بھی کئے جاتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے ان کو اس لئے کوئی سروکار نہیں کہ تقریباً ساری ہی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں حکمران ہیں یا پھر شریک اقتدار ہیں26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر تو حزب اختلاف کی جماعتیں شیر و شکر نہ بھی ہوئیں تو بھی براہ راست اور بالواسطہ کی حد تک مفاہمت سے منکر نہیں ہوسکتیں ایسے میں عوام کی بات کرنے والی جماعتیں کم ہی رہ جاتی ہیں جماعت اسلامی کی سعی رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک عوامی نمائندگی کی ذمہ داری نبھائے مہنگی بجلی کے خلاف اس کی مہم اور اس کے نتائج کسی سے پوشیدہ نہیں جماعت اسلامی کے امیر کے تازہ بیان کے مندرجات بھی عوام کی ترجمانی ہیں جس پر حکومت اور حکمران سیاسی جماعتوں کو توجہ دینی چاہئے مرکزی و صوبائی ہر سطح پر حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھائیں اور سرکاری مشینری کو کم از کم مصنوعی مہنگائی ہی کوقابو میں لانے کے لئے بروئے کار لایا جائے توفرق پڑ سکتا ہے ۔ بجلی بلوں میں ریلیف کے لئے آئی پی پیز کے ایک گروپ سے مفاہمت کے بعد دوسرے گروپ سے مذاکرات اورمعاہدے سے نکلنے کا راستہ نکالنے کے لئے جو سلسلہ جاری ہے اس میں سنجیدگی اختیار کرکے عوامی مفادات کے تحفظ کے ساتھ کوئی فارمولہ وضع ہوسکے تو بہتری کی توقع ہے سیاسی جماعتوں کو سیاست سے باز رہنے کا مشورہ تو نہیں دیا جاسکتا لیکن کم از کم جہاں ملک و قوم کے مفادات کا تقاضا ہو وہاں بلاوجہ کا اختلاف نہ کرکے عوامی توقعات کے مطابق موقف اپنانے کی گنجائش ہی کی رعات ہو تو یہ بھی غنیمت ہوتی۔

مزید پڑھیں:  آلودگی سے جینا محال