ہماری یادداشت میں اتنی طویل آتشزدگی کا کوئی واقعہ محفوظ نہیں، شہر کے مختلف حصوں میںجن میں بازار ،مارکیٹ اور رہائشی علاقے شامل ہیں ، آگ لگنے کے بہت سے واقعات محفوظ ہیں،جو زیادہ سے زیادہ چند گھنٹوں میں بجھائے جاتے تھے، ان واقعات کے ناتے انگریز دور کے قدیم فائر بریگیڈ والی ٹن ٹن کر کے آنے والی گاڑیاں جب کسی جگہ آگ لگنے کی شکایت پر اپنے ہیڈ کوارٹر( تحصیل گورگٹھڑی) سے نکلتیں تو تقریباً آدھا شہر باخبر ہو جاتا، کیونکہ کہ ان کی مخصوص ٹن ٹن والی آواز سے لوگ خطرے کی کیفیت بھانپ لیتے، گھروں میں خواتین خیر کی دعائیں مانگنے لگتیں، تومرد حضرات گھروں سے نکل کر جائے آتشزدگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے اکثر ایسی مارکیٹوں میں جہاں آگ بھڑکی ہوتی کے بارے میں معلوم ہو جاتا کہ ان میں کسی کی دکان ہے تو متعلقہ گھروں کے سارے مرد تیزی سے اپنی دکانوں کی جگہ لپکتے کیونکہ اکثر ایسے بازاروںمیں لوٹ مار کے واقعات بھی ہوتے۔ یعنی جب فائر فائٹرز آگ لگنے والی عمارت یا دکان دکانوں کے دروازوں پر لگے تالے توڑ کر ان میں محفوظ لگے تالے توڑ کر ان میں محفوظ اشیاء کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ”کارروائی”ڈالتے تو اکثر یہ دکانیں لٹ جائیں ، ایسی صورت میںجتنی معلومات ہمارے حافظے میں محفوظ ہیں اور جن کے بارے میں ہم نے اپنے خاندان کے بزرگوںسے سنا ہے توآگ لگنے والی دکان کے قریب والی دکانوں کے مالکان اس دور میںفائر فائٹرز(آگ بجھانے والے عملے) کی ”مٹھی گرم” کر کے اپنی دکانوں کے تالے توڑنے سے منع کرتے تھے، تاکہ ان کی دکانیں وغیرہ محفوظ رہیں، چونکہ ہمارے خاندان کے بیشتر افراد کی دکانیں شہر کی بہت بڑی مارکیٹ پیپل منڈی میں تھیں اور اس میںآتشزدگی کے کئی واقعات ہمیں یاد ہیں اس لئے ہمارے کئی چچا، ماموں، پھوپھا وغیرہ وغیرہ آگ کی اطلاع ملتے ہی فوراً مارکیٹ پہنچ کر اپنی دکانوں کو ”محفوظ و مامون”بنانے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے ، خیر بات ہو رہی تھی ، قدیم زمانے کے ان ”ٹن ٹن”کرتی فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی، ان کی تعداد دو ہوتی تھی ایک تو وہ جس کے ساتھ پانی کے لمبے پائپ اور ان کے ذریعے پریشر کیساتھ پانی بہت اونچائی تک پہنچانے والی مشینری ہوتی، اس کے پیچھے آنے والی وہ بس جس میں فائر بریگیڈ کے دیگر کا رکن بھی بیٹھے ہوتے اور اس میں وافر مقدار میں پانی کی ٹینکیاں لگی ہوتیں، اب وہ گاڑیاں از کار رفتہ ہو کر ایک عرصے تک تحصیل گور گٹھڑی کے ایک کونے میںکھڑی رہیں جبکہ ان کی جگہ (قدرے) جدید گا ڑیاں آگ بجھانے کے لئے منگوائی گئی ہیں، مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طویل آتشزدگی کے دوران دیگر اضلاع میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں منگوائی گئیں ایئر فورس اور دیگر اداروں سے بھی مزید امداد طلب کی گئی لیکن ایک بار آگ بھجنے کی خبریں آنے کے بعد دوبارہ آگ بھڑکنے کی اطلاعات سامنے آئیں ، ساتھ ہی ان ” گرفتار شدہ ” آگ بجھانے والی گاڑیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا اور مختلف یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا اکائونٹس پر ان کی ”گرفتاری” کے تذکرے کئے گئے جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں کسی بھی ایمرجنسی میں فعال کردار ادا کرنے والی یہ گاڑیاں مبینہ طور پر وفاق کیخلاف”یلغار” کے دوران اسلام آباد چڑھائی کیلئے لیجائی گئیں جہاں ان کو ”قبضے” میں لے کر وہیں روک لیاگیا ہے اور تادم تحریر ان کی”رہائی” ممکن نہیں ہو سکی ہے بقول پروفیسر طہٰ خان مرحوم
اک دوسرے کے بھائی ہیں انکار بھی نہیں
اک دوسرے کے ساتھ ہیں اقراربھی نہیں
”نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے”
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں”
ویسے تو دنیا اب بہت بدل چکی ہے اب وہ زمانہ کہاں رہاجب پورے پشاور کے لئے یہی دو گاڑیاں اس دور کے میونسپلٹی کے لئے انگریز دور میں خریدی گئی تھیں جو آگ بجھانے کے علاوہ اکثر رمضان المبارک اور عید الفطر کے مواقع پر رات گئے چاند کی”کنفرم” اطلاع لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھیں اور جب اکثر رات کے آخری لمحوں بلکہ سحری کی تیاری کے ہنگام چاند کی رویت ڈپٹی کمشنر کے احکامات کے تحت کی جاتی تھیں تو یہی گاڑیاں شہر کے مختلف علاقوں میں ٹن ٹن کی صدائوں کے ساتھ گھما کر ”عید” کی نوید دی جاتی ۔ اس دور میں مرزا محمود سرحدی نے بھی اسی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا
ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے
ہمارا شیخ کے فتوے پہ اعتبار نہیں
ہمارے ڈپٹی کمشنر نے چاند دیکھا ہے
ہمیں خبر ہے کہ وہ غیر ذمہ دار نہیں
بات پشاور میں طویل ترین آتشزدگی کی ہو رہی تھی جو ایک ایسے کارخانے میں لگی جہاں بچوں کے ڈائپرز وغیرہ تیار کئے جاتے تھے چونکہ ان اشیاء میں کیمیکلز کا استعمال ضروری ہوتا ہے اس لئے ایک بار ان میں آگ بھڑک اٹھے تو اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال کراچی کے ان کارخانوں میں دیکھنے کو ملتی رہی ہے جہاں کیمیکلز سے مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں ، ہم ان کارخانوںکی بات نہیں کر رہے ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں مالکان سے کروڑوں کا بھتہ نہ ملنے پر بھتہ خوروں کے سہولت کاروں نے مبینہ طورپر جان بوجھ کر ایسے طریقے سے آگ لگائی کہ لاتعداد افراد پھنس کر موت کی وادی میں اتر گئے یہاں اللہ کے کرم سے ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی ، بس شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی اور آناً فاناً اس طرح پھیلی کہ قابو میں نہ آسکی تازہ اطلاعات کے مطابق (تادم تحریر)53 گھنٹے گزرنے کے باوجود آگ نہ بجھ سکی ، اس میں غفلت کے پہلو تلاش کرکے ان پر قابو پانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے پر توجہ کی ضرورت ہے مثلاً انڈسٹریل ایریا میں جہاں ہر ایسے یونٹ میں جہاں کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً ماچس کی فیکٹریاں ، آئل یونٹس ، صابن کے کارخانے وغیرہ ان میں آگ بجھانے والے آلات اور سازو سامان کی فراہمی لازمی ہے ، جبکہ اگر سرکاری سطح پر فائر بریگیڈ کی گاڑیاں او ردیگر ضروری ساز و سامان ( آگ پر قابوپانے والی فوم) کے علاوہ انڈسٹریل ایریا میں قائم کارخانوں کے مالکان ازخود بھی فائر بریگیڈ کے لئے ر قوم فراہم کرکے ان سہولیات کا وہیں پر اہتمام کریں تو آگ لگنے کی صورت میں حکومتی امداد کے ملنے سے پہلے ہی یہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے بچائو کی تدبیر کر سکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر راحت اندوری
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
Load/Hide Comments