کہتے ہیں پانی کھڑا رہے تو بھی گندا ہوجاتا ہے،تغیر وتبدل نعمت ہے،ہر لحظہ اور ہر آن خوب سے خوب تر کی جستجو رکھنا عبادت ہے۔درستگی غلطی میں ہوتی ہے اور غلطی غلطی ہی ہوتی ہے لیکن غلطی کو غلطی نہ سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے،چوک میں نصب سگنل کی پابندی نہ کی جائے تو حادثہ یقینی ہوتا ہے۔میرے خیال میں اتحاد کی وہ کوشش جس کے پیش نظر کوئی اہم مقصد نہ ہو کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور وہ اہم مقصد جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ 26 ویں ترمیم میں سود کا خاتمہ ہے،جو وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی 2022 میں حکومت کو پاکستانی معیشت سے 2027 تک اسلامی احکامات کے مطابق سود کے نظام کو ختم کرنے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے، پر بدقسمتی سے وفاقی شرعی عدالت کے سامنے یہ سوالات آئے تھے کہ سود کا نام تبدیل کرکے کسی اور طریقے سے اس کو جاری رکھا جائے۔ اب چونکہ 26 ویں ترمیم کے مطابق یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ پاکستان میں اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کے فروغ کے لئے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے اور یہ میرے خیال میں ایک تاریخی کامیابی ہے کیونکہ آئین کا حصہ بننے کے بعد اب وفاق پر اس پر عمل کرنا لازم ٹھہرے گا یا انہیں اس سے پہلے آئین میں دوبارہ ترمیم کرنا ہوگی۔مجھے لگتا ہے اس فیصلے پر عمل درآمد وفاق کے لیے مشکل ہے۔ اتوار کے روز وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں 26 ویں آئینی ترمیم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لئے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔یاد رہے انسانی معاشرے کی فطری ترتیب ہی کچھ اس طرح ہے کہ ہر انسان جس سطح پر بھی ہو اس پر چند انسانوں کو اختیار ہوتا ہے اور خود اس کو بھی چند اور انسانوں پر اختیار ہوتا ہے۔سربراہ مملکت سے لیکر ایک چھوٹے سے گھرانے کے فرد تک ہی ترتیب موجود رہتی ہے۔لہذا اس اختیار کو انسان صحیح بھی استعمال کرتا ہے اور غلط بھی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ خبردار تم میں سے ہر ایک راعی اور نگہبان محافظ اور حاکم ہے اور جس کی نگہبانی اس کے ذمہ ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم نے تمہیں چند انسانوں پر اختیار دیا تھا تم نے اس اختیار کو کیسے اور کس طرح استعمال کیا۔میری وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ پاکستان میں خدمت اسلام کے بہت سارے محاذ ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر جدیدیت کے چیلنج کا محاذ،ذہن سازی،عدل وانصاف،سود کا مکمل خاتمہ،میدان سیاست میں خدمت کا محاذ وغیرہ وغیرہ۔زندگی کے سارے ہنگامے گفت وکلام،فکرو نظر اور فعل وعمل ہی سے ہیں اگر ان چیزوں کی سمت درست ہو جائے تو زندگی زندگی ہے۔لیکن بدقسمتی سے یہاں قوموں کا تقدیر ساز اور ملل کا محسن احساس ارتقا ونمو سے ابھی کوسوں دور ہے۔کفر اور باطل کی گہری سازشوں اور مہیب ہتھکنڈوں نے اس کی فکرو نظر اور قوائے جہد وعمل کو اس طرح شل کردیا ہے کہ اس کے لیے اپنی ذات سے نکل کر سوچنے کا شعور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اجتماعیت مفقود ہے اور اتحاد معدوم بلکہ عالمی سطح پر مسلمان مسلمان سے الجھا ہوا ہے اور حکومتیں ایک دوسرے کی تکفیر کر رہی ہیں۔ آج کل معاشرے میں سود کی مختلف تمویلی صورتیں مختلف ناموں سے رائج ہیں۔شرعی احکام سے ناواقف آدمی کسی نہ کسی درجہ میں ان میں مبتلا ہوجاتا ہے۔قران کریم میں جس گناہ پر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی دھمکی دی گئی وہ سود خوری کا گناہ اور بڑا جرم ہے۔آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرض حسنہ جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے۔دولت والے کسی کو بغیر نفع روپیہ دینا چاہتے نہیں اور اہل حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا عظیم وبال ہے۔یاد رہے! عمل کی فرصت اس دنیا میں ہی ہے۔یہاں انسان آزاد ہے ارادے میں اور عمل میں لیکن اس کی آزادی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دنیا اندھیر نگری اور چوپٹ راج سمجھ لی جائے اور یہ باور کرلیا جائے کہ اعمال پر باز پرس نہیں ہوگی۔یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ راتوں کے بعد دن آتے ہیں اور خوشیوں کے بعد غم،یہ انقلابات زمانہ اور یہ حوادث بذات خود اس امر کی دلیل ہیں کہ یہ دنیا کھیل تماشہ ہے،سراب ہے لیکن وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشہ سمجھیں وہ کسی بھی صورت میں لائق اتباع نہیں ہوتے ،لائق تقلید ہونا تو دور کی بات ہے وہ کسی سرسری دوستی اور محبت کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لے۔جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو آواز اٹھانا لازم ہے ۔ پاکستان کو اسلامی انقلاب کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب کسی انسانی وجود میں بیماری پھیلتی ہے تو علاج ضروری ہوجاتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ ہوجائے تو بیماری اور پھیلنے لگتی ہیں اور جب ایک کھیت کو بیماری لگتی ہے تو خراب پودوں کو تلف کیا جاتا ہے اسی طرح معاشروں میں جب زوال پڑتا ہے تو انقلاب لازمی ہوجاتا ہے۔ اب میں عرض کرتا ہوں کہ ہم چاہتے کیا ہیں،صرف اسلامی انقلاب اور ملک سے سود کا مکمل خاتمہ،معذرت کے ساتھ میں اپنی یہ بات لکھ رہا ہوں کہ آب تو ہمارا حال یہ ہے کہ کل تک جو اغیار ہمارے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر ہم سے قریب ہوتے تھے پھر رفتہ رفتہ ہماری نرم گوئی اور متانت و سنجیدگی سے ہمارے مقدس مذہب سے وابستہ ہوکر اسلام کی پناہ میں آجایا کرتے تھے،آج وہی ہماری بداخلاقیوں اور ہمارے معاشرے میں باہم انتشار اور تنا کے پیشِ نظر ہم سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔