سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان60کروڑ ڈالرز مالیت کے سات نئے معاہدوں اور یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ سعودی وزیر گزشتہ روز پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ریاض میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں ماہ سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے دوران2.2ارب ڈالرز کے 27 معاہدوں اور یاد داشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ آج ہونے والے معاہدوں کے بعد ان معاہدوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے جن کی کل مالیت تقریباً 2.8 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ سعودی وزیر نے کہا کہ رواں ماہ طے پانے والے سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سے پانچ پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ماہ ان منصوبوں پر بات چیت کے لئے سعودی عرب کا دوبارہ دورہ کریں گے۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف منگل کے روز فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے۔حکمران یہ کہہ کر بھی خوشیں منا رہے ہیں کہ ابھی معاہدے کی سیاسی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سرمایہ کاری شروع ہو گئی ایسا ممکن ہی نہیں ہوتا بلکہ معاہدے پر عملدرآمد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں عرصہ لگ جاتا ہے نیز معاہدے کے مطابق منصوبوں پر مکمل طور پر عملدرآمد بھی تو خاصا مشکل کام ہوتا ہے بلکہ مکمل عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے بہرحال ایک جانب جہاں دعوے اور خوش فہمیاں ہیں وہاں دوسری جانب صرف آئی ایم ایف کے قرضے اور داخلی معاشی مشکلات ہی نہیں مزید مالیاتی مشکلات کا بھی ملک کو سامنا ہے اقتصادی امور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران حاصل ہونے والی بیرونی فنانسنگ میں سالانہ بنیادوں پر 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے بیرونی فنانسنگ میں کمی سے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو سکتی ہے جس کے لئے حکومت کو دوست ممالک سے قرضوں کو رول اوور کرنا پڑے گا۔ لیکن ہم صرف لاہور میں سعودی عرب کی تیل کمپنی کا پہلا پمپ کھلنے کو کامیابی سمجھتے ہیں حالانکہ معیشت بے رحم اعداد و شمار اور حقیقتوں کا نام ہے جس میں کسی سے رعایت ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ دیو کسی کے طاقتور کے قابو میں آنے والی ہوتی ہے اس تناظر میں حقیقت تو پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ حکمران جس کامیابی پر شادیانے بجا رہے ہیں وہ دل کو خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق ہے بہرحال اس منفی خیالی کی حقیقت کے باوجود مایوسی گناہ ہے کے مصداق جائزہ لیاجائے تو وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب اور قطر ملکی اقتصادیات اور خارجہ تعلقات کے باب میں ایک امید افزاء پیش رفت ہے دو ہفتے قبل سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں آمدہ وفد کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں میں بیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ ہوا تھا تاہم اب اسے بڑھا کر دو ارب 80کروڑ ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ سعودی عرب ویژن 2030ء کے تحت اندروں اور بیرون ملک سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش میں ہے اور پاکستان اس حوالے سے سعودی عرب کی ترجیح اور اچھی مواقع فراہم کر سکتا ہے پاکستان میں سعودی عرب کے لئے صنعت ، زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کان کنی سمیت دیگر کئی ایسے شعبوں میں بھر پور مواقع ہیں جن میں سعودی عرب کو مواقع کی تلاش ہے دوسری جانب پاکستان کی معیشت و اقتصاد کی بہتری کے لئے پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ایسے میں دونوں کے لئے مواقع اور مفاد کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ شعبوں میں تعاون اور سرمایہ کاری ہو۔البتہ صرف صورتحال کا حوصلہ افزاء ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اچھی پیشرفت کے تقاضے کے تحت پاکستان کو داخلی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے حکومت صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیبدے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی بلکہ اسے تحفظ فراہم کرنے اور ساز گار ماحول دینے کی بھی ذمہ دار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف سرمایہ کاروں کو راغب کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ متعلقہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے سیکھ کر ان کا اعادہ کئے بنا بھر پور عزم کے ساتھ کام کیا جائے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے مطلوبہ سہولیات اور آسانیاں بھی حسب وعدہ فراہم کرنے میں کوتاہی نہ ہوتبھی غیر ملکی سرمایہ کاری اور اس کے ثمرات کے حصول کی نوبت آسکے گی۔پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ اور سیاسی عدم استحکام دو ایسی رکاوٹیں ہیں جن سے غیر ملکی سرمایہ کار نالاں اور خوفزدہ رہتے ہیں اور مواقع کے باوجود سرمایہ کاری سے گریزاں رہتے ہیں ان دونوں بطور خاص توجہ دینے اور پیچیدگیاں دور کرنے کے لوازمات پر ترجیحی توجہ اور ضروری اقدامات ناگزیر ہیں۔