شمالی اور جنوبی وزیرستان جو کبھی عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے گڑھ اور ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کے حوالے سے بڑے پیمانے پرمتعارف ہوئے وہاں اب نہ صرف امن قائم ہے بلکہ اس حوالے سے خوشخبری یہ ہے کہ وزیرستان میں قدرتی وسائل کی ترقی اور اس سے استفادے پر توجہ دی جانے لگی ہے شمالی وزیرستان میں گیس کے دریافت شدہ ذخائر سے متعلق معاملات طے کرنے کے لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے تشکیل کردہ صوبائی مشترکہ کمیشن کا تعارفی اجلاس وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈا پور کی زیر صدارت میں منعقد ہوا ۔ یہ کمیشن شمالی وزیر ستان میں دریافت ہونے والے پٹرولیم اور گیس کے ذخائر سے جڑے مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے جائز مطالبات کے حل کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کمیشن مذکورہ وسائل کا قوم، خطے اور مقامی لوگوں کے وسیع تر مفاد میں استعمال یقینی بنانے کیلئے طویل المیعاد پالیسیاں اور حکمت عملی بھی وضع کرے گا۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ قدرتی وسائل کے پیداواری اضلاع کی ترقی حکومت کی پہلی ترجیح ہے،شمالی وزیرستان کے لوگوں کے جائز مطالبات پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اسی مقصد کے لیے مشاورتی فریم ورک بنایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ شمالی وزیرستان سے گیس کی سپلائی شروع ہونے سے صوبہ کو پانچ ارب روپے سالانہ رائلٹی ملے گی جس کا 15 فیصد حصہ پیداواری ضلع کی ترقی پر خرچ کیا جائے گا۔شمالی وزیرستان میں اگرچہ امن و امان کی صورتحال زیادہ سنگین نہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں اس طرح کے مواقع سے استفادے کی سعی شروع ہوتی ہے ملک اور امن کے دشمن اس طرف متوجہ ہوتے ہیں شمالی وزیرستان چونکہ خوارج کی سرگرمیوں سے متاثرہ علاقہ رہا ہے اس لئے بطور خاص علاقے کے امن کے تحفظ کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو باہم تعاون کا مظاہرہ کرنا ضروری ہو گا مقامی وسائل سے قانون کے مطابق استفادہ شروع کرنے کا تقاضا ہو گا کہ مقامی آبادی میں اس حوالے سے کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں عملی طور پر کوششوں سے اس کا راستہ روکا جا سکتا ہے کہ مقامی آبادی کے تحفظات دور ہوں ہرمرحلے پر ان کے مفادات کا تحفظ اور ترجیح کا حق دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کام احسن طور پر انجام نہ دیا جا سکے ۔