پولیو پرقابو پانے میں ناکامی

پاکستان میں تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو پر قابونہیں پایا جا سکا پولیو وائرس بے قابو ہو چکا پولیو کیسز بکثرت رپورٹ ہونے لگی ہیں اس سال 43 سے زائد کیسز کی رپورٹ ہو چکی ہے جس میں خیبر پختونخوا سے سات کیسز بھی شامل ہیں اس ساری صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں پولیو کو شکست دینے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرناپڑ سکتا ہے ۔ اس بیماری کے خلاف ہماری دہائیوں کی لڑائی کے باوجودبھی ابھی بہت سے چیلنجز باقی ہیں۔ پولیو ٹیموں پر حالیہ مہلک حملے اور ویکسین سے انکار کی بڑھتی ہوئی تعداد الگ سے سنگین مسئلہ ہے پولیو سے نجات حاصل کرنی ہے تو ان دو رکاوٹوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ والدین کی جانب سے انکار کی شرح افسوسناک طور پر بڑھ گئی ہے اور کوشش کے باوجود پراپیگنڈے میں کمی نہیں آتی پولیو ویکسین کو بانجھ پن یا دیگر منفی اثرات سے جوڑنے والی وسیع خرافات نے خوف اور مزاحمت کو جنم دیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایسی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں چند افراد کے کردار کو زیادہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ علما ء کی شمولیت عوامی تاثر کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ کمیونٹیز سے بات کر سکتے ہیں جیسے کہ جمعہ کے خطبات کے دوران یہ واضح کر سکتے ہیں کہ پولیو ویکسین محفوظ ہے، اور مذہبی اصولوں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ، حکومت کو ویکسین کی غلط معلومات کے انسداد کے لیے بڑے پیمانے پر میڈیا مہم چلانی چاہئے۔ پاکستان جو کہ اس مصیبت کے خاتمے کے قریب پہنچ چکا تھا، اب ایک اور بحالی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش پولیو کے خاتمے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس سیاس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ مسلسل کوششوں اور حکمت عملی کی منصوبہ بندی سے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ پولیو اب صرف دو ممالک کے لیے وبائی مرض ہے: جنگ سے تباہ حال افغانستان اور پاکستان افغانستان اپنی جگہ ہماری حکومت کا عزم اس راستے کا تعین کرے گا جو ہم اختیار کرتے ہیں۔ پولیو کا خاتمہ دسترس میں ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب ہمارا ردعمل چیلنج کے پیمانے پر پورا اترے۔

مزید پڑھیں:  امید وبیم کاسفر