پاکستانی پارلیمنٹ کے 160 ارکان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر امریکی نمائندگان کے اس خط کا مسکت جواب دے دیا ہے جوامریکی کانگریس کے 62ارکان نے امریکی صدر جوبائیڈن کو لکھا اور جس میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی رہائی کے لئے حکومت پاکستان پردبائو ڈالے ، پاکستان کے پارلیمانی ارکان نے امریکی کانگریس کے ارکان کے خط کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے کہ بحیثیت پارلیمنٹیرین سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کے ذریعے کانگریس ارکان کو آگاہ کریں کہ پاکستان جمہوری چیلنجز سے نبردآزما ہے جسے انتہا پسندی کی سیاست نے مزید پیچیدہ کر دیا ہے خط میں لکھا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی تشدد اور مجرمانہ دھمکیوں کو متعارف کرایا ، پی ٹی آئی نے 9 مئی 2023ء کو بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی ، انہوں نے ہجوم کو پارلیمنٹ ،سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت اور ریڈیو پاکستان پر حملے کے لئے اکسایا ، ارکان پارلیمنٹ نے خط میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے انتشاری سیاست سے اگست 2019ء اور مئی 2022ء میں بھی ملک کو مفلوج کیا تھا بانی پی ٹی آئی جیل سے اسلام آباد، لاہور میں انتشار کوہوا دیتے رہے ہیں وزیر اعظم کے نام لکھے گئے خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ڈیجیٹل دہشت گردی سے سوشل میڈیا کا استعمال کیا خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کی منفی مہم میں کردار امریکہ ، برطانیہ میں مقیم منحرف عناصر ادا کر رہے ہیں امریکہ اور برطانیہ کی ریاستیں اپنے شہریوں کے خلاف غیر معمولی اقدامات پر مجبور ہیں خط میں ایک مخصوص پارٹی کے بے بنیاد سیاسی بیانئے پر امریکی حکومت سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ، خط میں ایک سیاسی جماعت کے سیاسی عمل اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم پر بھی تحفظات کا اظہار کیاگیا ۔ جہاں تک پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کی اتنی بڑی تعداد کا وزیر اعظم شہباز شریف کوخط لکھ کر امریکی کانگریس کے 62ارکان کے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان کے بارے میں توجہ دلانے کا تعلق ہے تو پاکستانی اراکین پارلیمان نے نہایت ہی بروقت امریکی کانگریس اراکین کی جانب سے امریکی صدر کوخط میں توجہ دلانے کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت قرار دے کر امریکی ایوان نمائندگان کے کردار کو واضح کر دیا ہے جبکہ برطانیہ میں بھی حکومتی اقدامات کے خلاف غیر معمولی اور غیر آئینی احتجاج کے بعد برطانوی حکومت کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وہاں پر کسی بھی جانب سے کسی احتجاج نہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے اقدامات کو درست قرار دیا ہے، یاد رہے کہ امریکہ میں بھی سابق صدر اور موجودہ امیدوار صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے اکسانے پر جن لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی غلطی کی تھی ان کے خلاف قانون حرکت میں آنے کے بعد جس طرح احتجاج کرنے والوں کو قیدو بند میں ڈالنے کے اقدامات کئے ان اقدامات کے خلاف تو امریکی کانگریس کے ارکان نے چوں تک نہیں کی مگر خود کو دنیا بھر میں جمہوری اقدار کا نگہبان اور انسانی حقوق کا علمبردار قراردینے والے اراکین کانگریس کو مداخلت کے لئے صرف چھوٹے اور کمزور ممالک ہی نظر آتے ہیں جہاں اگر آئین اور قانون کے مطابق انتشار پسندوں ، قانون شکنوں اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں تو یہ بے لگام کانگریس اراکین جمہوریت اور آئینی اقدامات کے تحت سزایافتہ ارکان کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے (لابنگ کے ذریعے)اکٹھے ہو جاتے ہیں اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی میں ا مریکی کردار کے الزامات غلط ہیں ایک پریس کانفرنس میں امریکی ترجمان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف قانونی کارروائی پاکستانی عدالتوں کا معاملہ ہے اور امریکی وزارت خارجہ اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی میں امریکہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا اس وضاحت کے بعد ” لاکھوں ڈالر لابنگ فرموں سے وصول کرنے والے ”امریکی کانگریس کے ارکان کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ بانی پی ٹی آئی اگر آج قانون کے شکنجے میں ہیں تو پاکستانی عدالتوں میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمات کی وجہ سے ہی ان کی رہائی کا اہتمام آئینی اور قانونی طور پر کیا جا سکتا ہے انہیں زبردستی قید میں نہیں ڈالا گیا نہ ہی ایک دن سے بھی زیادہ انہیں حراست میں رکھا جا سکتا ہے ان کو جتنی سہولتیں پاکستانی عدالتوں کے احکامات کے تحت فراہم کی جارہی ہیں پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال تک نہیں ملتی تاہم امریکی کانگریس اراکین اور اب برطانیہ کے اندر بھی ان کے لئے جو آوازیں اٹھائی جارہی ہیں ا ن کی حقیقت سے پاکستانی قوم واقف ہے لیکن اس حوالے سے مزید بات کرنا تضیع اوقات کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس قسم کے تمام اقدامات پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔