صحافیوں کیخلاف جرائم کے خاتمے

صحافیوں کیخلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

ویب ڈیسک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کیخلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے۔
معاشرے کی آنکھ اور کان سمجھی جانے والی صحافی برادری جو ہر طبقے کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی ہے، آج انتہائی کٹھن اور خطرناک حالات میں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ صحافی تشدد سہتا ہے، دشمنیاں مول لیتا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس کی داد رسی نہیں کی جاتی، صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث اکثر مجرم قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے ہرسال 2 نومبر کا خصوصی دن منانے کا مقصد عوام کو سچائی بتانے کی پاداش میں قتل ہونے یا تکلیفیں سہنے والے صحافیوں کی یاد دلانا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود صحافیوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار تشویش ناک حد تک زیادہ ہیں۔ یہ تمام بنائے جانے والے قوانین صرف قوانین ہی ہیں، اس سے صحافیوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہو پا رہا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آج بھی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو صحافیوں کے لیے خطرناک گردانے جاتے ہیں، 2000 سے لے کر 2022 تک پاکستان میں 150 صحافی قتل کئے گئے جبکہ سزائین صرف دو ملزمان کو مل سکیں۔ صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے 2024 کو پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے مہلک ترین سال قرار دیا ہے، اس سال 6 صحافیوں کو قتل اور 11 پر قاتلانہ حملے ہوئے۔
تنظیم کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں یہ بھِی بتایا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے باوجود حکومتیں ان قوانین کو پوری طرح نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں اور صحافی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر 2023 سے اگست 2024 کے دوران صحافیوں کے خلاف 57 واقعات ریکارڈ کیے گئے، ان میں سب سے زیادہ 21 واقعات سندھ، 13 پنجاب، 12 اسلام آباد، 7 خیبر پختونخوا اور 2 واقعات بلوچستان میں رپورٹ ہوئے۔ یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کیخلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:  پاراچنار ٹل شاہراہ بندش، ہندو و عیسائی کمیونٹی بھی متاثر ہونے لگیں