طلبہ یونین بحالی

ملک کے اندرطلبہ کے منتخب یونینز پر پابندی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کی ابتداء ایوبی آمریت کے دور استبداد سے ہوئی جب نہ صرف سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) بلکہ مغربی پاکستان(موجودہ پاکستان) میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایوبی آمریت کے بعض اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی احتجاجی مظاہرے کئے اور ان میں بعض جانوں کا ضیاع بھی ہوا اس کے بعد ایوب خان کی حکومت نے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کے جمہوری کردار کوختم کرنے کی پالیسی کے تحت ان اداروں میں یونینز پرپابندی لگا دی گئی اس حوالے سے ایک یونیورسٹی آرڈی ننس متعارف کرایا گیاجس میں تعلیمی اداروں میں بھی ایک طرح سے گویا”مارشل لائ” نافذ کر دیا گیااس آرڈی ننس کے خلاف ملک کے طول و عرض میں طلبہ نے سخت احتجاجی مظاہرے کئے اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تاہم آمرانہ حکومت کے ہتھکنڈوں کے سامنے نہتے طلبہ کب تک ٹھہر سکتے تھے پھر یہ سلسلہ طول پکڑ تاچلا گیا اگرچہ ملک کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد اس پالیسی پر نظر ثانی کی گئی مگر طلبہ کے اندر ذہنی گھٹن اس قدر توسیع اختیار کر چکا تھا کہ پرامن تعلیمی سرگرمیاں اور یونین کی سطح پر مخالف تعلیمی دھڑوں میں برداشت کی صورتحال معمول پر نہ آسکی اس دوران ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت نے ایسے طلبہ گروپ کی بنیاد رکھی جو آتشین اسلحہ کی نوک پر مخالف دھڑوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے زور زبردستی یونینوں پر قابض ہوتی رہی اس کے بعد متعدد بار طلبہ یونینز بحال اور معطل ہوتے رہے اور اب کچھ سالوں سے یہ طلبہ تنظیمیں ایک بار پھر مفقار زیر پر ہیں حالانکہ طلبہ یونینز کا بنیادی کام ملک کی نوجوان نسل کو جمہوری اقدار سے آشنا اور ان کی تربیت کرکے آنے والے دور کے لئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل بنا کر ملک کی باگ ڈورسنبھالنے کے لئے تیار کرنا ہے بدقسمتی سے مگر ہمارے ہاں نہ تو تعلیمی اداروں کی سطح پر نوجوان نسل کو جمہوری اقدار کے لئے تیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے نہ ہی بلدیاتی سطح پر قائم اداروں کو سہولتیں فراہم کرکے ان اداروں کے ذریعے نئی نسل کی سیاسی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے اراکین کو ان کے آئینی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں اور انہیں فنڈز سے محروم رکھ کر وہاں بھی جمہوریت کی بیخ کنی کرتی ہیں اب جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں طلبہ یونین بحال کردیئے گئے ہیں تو امید ہے کہ تعلیمی اداروں میں مثبت یونین سرگرمیوں سے جمہوری اقدار کو فروغ ملے گا۔

مزید پڑھیں:  گیس پیداوار اور نرخوں میں اضافہ؟