آج گھر سے نکل کر دیکھیں آپ کا محلہ گند ا پڑا ہوگا ۔ گٹر بند ہوں گے ، راستے لوگوں نے گاڑیاں کھڑی کرکے یا تجاوزات کرکے تنگ کردئیے ہوں گے۔باہر سڑک پر کوئی گاڑی ولا ٹریفک کے کسی اصول کی پاسداری نہیں کررہا ہوگا۔ اگر ٹریفک پولیس والا کسی کو روکے تو دس بندے اس غلط بندے کی حمایت میں آجائیں گے ۔ کہیں اگر کوئی لڑائی جھگڑا دیکھیں تو سینکڑوں لوگ جمع ہوکر اس میں جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف نظر آئیں گے ۔یہ اور اس طر ح کی ہزار خرابیاں آپ کو ایک ہی جگہ نظر آجائیں گی ۔مگر ہمارے معاشرتی نظام میں ان خرابیوں کو درست کرنے اور تہذیب یافتہ دنیا کی طرح خود کو بہترقالب میں ڈھالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ہم خود کو پاک صاف رکھنا اور اپنے ماحول کو صاف رکھنا کار بیکار سمجھتے ہیں اور جو ایسا کرنے کی سعی و کوشش کرتا ہے اسے پاگل قرار دیتے ہیں ۔یہ سلسلہ اس تواتر سے ہمارے ماضی سے ہمارے حال تک آگیا ہے کہ اب یہ ہماری عادت ثانیہ ہے ۔اب آتے ہیں قوم کی ترجیحات کی طرف سیاسی شخصیات کو خوش کرنے کے لیے روزجلسے جلوس کریں گے ۔دھرنے دیں گے ، توڑپھوڑ کریں گے ۔ پولیس والوں کے سر پھاڑیں گے اور وہ تمام سیاسی شخصیات اپنے پرتعیش گھرو ں اور لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر شام کو کسی ہوٹل کی لابی یا کسی کلب میں ایک ساتھ بیٹھ کر مزے کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ ساری سیاسی شخصیات ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کے کارکن ایک دوسرے کو مارنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور کمربستہ رہتے ہیں ۔ یہ غریب لوگ اور ان کے بچے کام کاج نہیں کریں گے ۔ ملک و علاقہ کے بہتری و تعمیر میں کوئی حصہ نہیں ڈالیں گے مگر اپنی پسندیدہ پارٹی یا شخصیت کے لیے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہیں گے ۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ہمہ وقت مراعات کے لیے کوشان رہے گا۔لیکن جو اس کے فرائض ہیں ان پر دھیان نہیں دے گا ۔ اس معاشرہ میں جائز کام کے لیے بھی سفارش درکار ہوتی ہے ۔ یہاں سب کچھ پی آر پر ہوتا ہے ۔ وہ لوگ جو کچھ نہیں کرتے وہ اس معاشرے میں عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ جسے جو اختیار دیا جائے وہ اسے ذاتی فائدے اور طاقت کی نمود و نمائش کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ لگ بھگ یہی صورتحال چین کی آج سے تیس برس پہلے تھی ۔ چینیوں نے صرف قوم کی ترجیحات کا تعین کیا اور پھر اپنے نظام کو ان ترجیحات کے حصول کے لیے قانون کے تابع کیا آج ان کی حالت دیکھیں اور ہماری حالت دیکھیں ۔چینی اس دور میں افیون کے نشے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے تھے ۔ آج وہ دنیا میں سب سے کم نشہ کرنے والے اقوام میں شامل ہوگئے ہیں ۔ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ایک قوم نہیں بن سکے آج بھی بلوچ، پشتون ، پنجابی ، سندھی ، سرائیکی اور کشمیریوں اور دیگر سو سے زیادہ اقوام کی سوچ الگ الگ اور ترجیحات الگ الگ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں مذہبی ، مسلکی ، لسانی اور گروہی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ ہمارے قومی ترجیحات کا تعین ہی نہ ہوسکا ۔ پھر اس ملک میں مالی مفاد کو سامنے رکھ کر علاقائیت و صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے جس سے مشترکہ مفادات کا تعین ہی نہیں ہو پاتا ۔ اس سب کا فائدہ مخصوص گروہ اٹھاتے ہیں ۔ سب لوگوں کو آپس میں لڑوا کر ان کو ایک دوسرے سے بد ظن کرکے یہ
گروہ اپنے مفاد اٹھاتے ہیں ۔ اس لیے یہ ملک قرضوں میں ڈوبتا جارہا ہے ۔ یہ جو کھربوں روپوں کے قرضے ہیں یہ مخصوص لوگوں کے جیبوں میں جارہے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ملک کی تعمیر وترقی کے لیے ان لیے گئے قرضوں کا دس فیصد بھی کافی تھا ۔ اپنے ملک کا سالانہ ترقیاتی بجٹ اٹھا کر دیکھ لیں اور پھر سالانہ حاصل کیے گئے قرضوں کی تفصیل اٹھا کر دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ ان قرضوں کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے تو پھر یہ پیسے کہاں جاتے ہیں ۔ یہی نہیں یہ اشرافیہ مل کر بجلی ، گندم ، سیمنٹ ، چینی ، کھادوں اور کئی دیگر مدوں میں جو ہزاروں ارب روپے کھا جاتے ہیں وہ الگ ہیں ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ہماری ترجیح ملک کی ترقی نہیں ہے ۔ تعلیم کا حصول نہیں ہے ، انصاف کی فراہمی نہیں ہے ، ملک کی خوشحالی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کا تحفظ ہے جو یہ سب کر رہے ہیں ۔ کچھ لوگ شعوری طور پر ایسا کررہے ہیں اور زیادہ ترلوگ مفت میں سوچے سمجھے بغیر اس کورگھ دھندے میں شامل ہوتے ہیں ۔چھوڑیں سیاسی پارٹیوں اور ان کے معاملات کو ، گروہی ، لسانی ، مسلکی لوگوں کو اور اپنے بچوں پر توجہ دیں ان کے مستقبل کی فکر کریں ، اپنی فکر کریں ، اپنے کاروبار کی فکر کریں اپنے گھر او رعلاقہ کی ترقی کی فکر کریں ۔ جس دن آپ نے ان مداریوں کے تماشے میں جانا چھوڑ دیا ان کا دھندہ بند ہوجائے گا ۔ یہ آپ کا ہجوم اکھٹا کر کے اپنا کام نکالتے ہیں اور اس کا نقصان آپ کو ہوتا ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں جب اس ملک میں سڑک بند نہ ہوتی ہو ، احتجاج نہ ہورہا ہوتا ہو ، لوگ سینکڑوں مرتبہ اسلام آباد کا رُخ کرتے ہیں دھرنے دیتے ہیں ، جب سیاست دانوں یا مذہبی ، مسلکی اور لسانی گروہوں کا درپردہ مقصد پورا ہوجاتا ہے ۔ان لوگوں کو واپس ان کے علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ عقل کے اندھو کبھی ان سے پوچھ بھی لیا کرو کہ کس مقصد کے لیے وہ آپ کو سڑکوں پر خوار کرتے رہے پولیس کے ہاتھوں ذلیل کرتے رہے اور کیا وہ مقصد پورا ہوگیا ۔ اس کام میں بطور آسان ترین ایندھن طلبا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں غنڈے پالے ہوتے ہیں ۔ جنہیں پاکستان کا قانون اور قانون نافذ کرنے والے کچھ نہیں کہتے ۔ جس ملک کے تعلیمی اداروں میں ملک کے سیاسی گروہ اپنے غنڈے پالیں اور ان کے ذریعہ ان تعلیمی اداروں کو تباہ کردیں وہاں پرترقی کیسے ممکن ہے ، وہاں تعلیم کیسے ممکن ہے ، وہاں سے شعورو آگہی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ۔ جس ملک کا ٹیلی ویژن اور میڈیا چوبیس گھنٹے ان ڈراموں کو ٹاک شوز اور خبرو ں کی زینت بنائے وہاں کے لوگ ترقی کا خواب کیا دیکھیں اور ترقی کریں گے کیسے ۔ اس ملک میں ٹی وی شو سے سپریم کورٹ کے مقدموں تک یا تو ان افراد کے دفاع یا پھر ان کی مخالفت میں ہی سال کے 365 دن صرف کیا جاتے ہوںوہاں ایسا ہی ہوگا جو اس ملک میں ہورہا ہے ۔ حکمران قرض پر قرض لیے جارہے ہیں ۔ کاروبار تمام تر سمگلنگ کے مرہون منت ہے ۔ ہر کام رشوت اور سفارش سے ہی ممکن ہے ۔ اور بدانتظامی کی حالت یہ ہے کہ کوئی بھی جگہ قابل رہائش نہیں ہے ۔ کوئی بھی جگہ کسی کے لیے بھی محفوظ نہیں ہے ۔ طاقتور سب کچھ کرسکتا ہے او ر غریب طاقتور کی طاقت میں مزید اضافے کے لیے جلوس نکالتا ہے دھرنے دیتا ہے ۔ لڑتا ہے ، جیل جاتا ہے اور اسے اپنی کامیابی سمجھتا ہے ۔ جس دن قوم نے اپنی ترجیحات بدل دیں اس دن ہم بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترقی ، خوشحالی ، سکون ، تہذیب اور انسانیت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اور اگر یہی صورتحال رہی جو اس وقت ہے تو اگلے چند برسوں میں ہم ایک دوسرے کوکاٹ کھائیں گے ۔
Load/Hide Comments