والدین اور بچوں کا تعلق

ہمارے معاشرے میں ایک اکثریت ایسے بچوں کی ہے جو والدین کی بد سلوکی کا شکار ہیں ، ایسے جواں عمر بھی تعداد میں بہت زیادہ ہیں جو بچپن سے نظر انداز اور والدین کی قربت سے دُور رہے ۔ بسا اوقات تو یہ زبانی گالم گلوچ اور جسمانی مار کسی معمولی سی بات پر نا دانستہ طور پہ سر زد ہو تی ہے والدین کو اس کے اثرات کا علم نہیں ہوتا ۔ ہم مذہبی آڑ بھی لے لیتے ہیں کہ بچوں کی اصلاح کرنے کو یہ سب کچھ درست ہے اور مناسب عمل قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک سماجی روگ ہے ، جس کا ہمیں احساس نہیں مگر گھر اور خاندان کی تباہی ہے ۔ اپنائیت کے نام پر بچوں کو جو جی آیا کہہ دیا جاتا ہے اور ہم اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ایسے کئی والدین سامنے آئے جو بچوں کے ساتھ شفقت برتنے کی بجائے ہمیشہ اُنہیں اپنے بچوں کو یہی کہتے سنا ” مجھ سے اگر پھر ہنسی مذاق والی بات کی تو زبان کھینچ لوں گا ” ۔ ۔ ” نہ جانے کیا خطا ہوئی کہ تم جیسی اولاد مل گئی ”۔۔اس کے ساتھ ہی بعض والدین اور بزرگ بچوں پر عتاب بھی کرتے ہیں ۔ اس منفی رویے اور بد زبانی کا اثر جوانی یہاں تک کہ بڑھاپے تک باقی رہ سکتا ہے جو زندگی بھر انسان کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔یہ اثرات بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران بھی ذہنی طور متاثر کیے رکھتے ہیں ۔ دماغی نشو و نما میں خرابی ، زبان میں بگاڑ ، اعصابی کمزوری ، تعلیمی نقصان ، منشیات اور جنسی بے راہ روی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں ۔ اس حوالہ سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بچوں کا اپنے والدین اور بزرگوں سے رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے بلکہ ٹوٹ سا جاتا ، جس کا پھر اعتماد حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ بچپن میں ان روئیوں کے شکار بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تب بھی ان کی شخصیت میں ڈپریشن ، بے چینی اور اُداسی پائی جاتی ہے ۔ برسوں پہلے ہاسٹل میں ایک دوست نے مجھے یہ کہہ کر افسردہ کیا کہ اُس کے بچپن کی یادوں میں صرف والدہ کی چیخ و پکار کانوں میں پڑتی ہے جب والد میری ماں کو زد وکوب کیا کرتا ۔ وہ کہتا کہ پھر مَیں گھر کے کسی کونے میں چھپ جاتا کیونکہ جب روتا تو والد مجھے بھی مارنے لگتا ۔ کیا کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے بچپن میں والد کے گالم گلوچ کی اذیت اور اپنی ماں کی سسکیاں اور گھر میں اس کی تذلیل کو بھول جائے ؟ المیہ یہ ہے بہت سے تعلیم یافتہ والدین بچوں کو ڈرا دھمکا کر کام لیتے ہیں ۔ اپنے کردار کی خوبیوں سے اپنے لیے محبت و
احترام پیدا کرنے کی بجائے وہ خوف زدہ رکھنا زیادہ ضروری خیال کرتے ہیں ۔ محبت اور احترام کے جذبات دل میں ہوتے ہیں جبکہ ادب ایک خارجی عمل ہے ۔ روایتی قسم کا ظالم شوہر اور جابر قسم کا باپ یہ نہیں جانتا کہ مَیں نے گھر میں خوف کا جو ماحول بنا رکھا ہے ، وہ کسی طور پہ بھی فائدہ مند نہیں ۔ باپ کو خوف کی علامت اور ڈر کی مجسم صورت ہر گز نہیں ہونا چائیے ، اُسے تو اولاد کے لیے محبت اور حسن سلوک کا شیریں چشمہ ہونا چائیے ۔ اب بہت سے بچوں کی بد زبانی ، بد اطواری اور بد نیتی محض اس وجہ سے ہے کہ باپ نے گھر میں خوف کا ماحول پیدا کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھر میں معمول کے مطابق زندگی بسر نہیں ہوتی ۔ گھر کا کانٹوں بھرا ماحول بعض اوقات بچوں کی آئندہ زندگی کو بھی کانٹوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھے بچے جب خود باپ بنتے ہیں تو بالعموم اپنے باپ جیسے ہی بن جاتے ہیں ۔ معاشرہ اور سماج کے بہت سے باغی شاید نفسیاتی اعتبار سے قانون کو بھی ” باپ ” سمجھ کر اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہوتے ہیں ۔ مغرب میں مجرموں کی تحلیل نفسی کے نتیجہ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کئی افراد کے مجرمانہ طرز عمل کی اساس باپ کے ڈر کی صورت میں نکلی ہے ۔
ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے لیکن تعجب ہے کہ یہی واعظین اس پہلو سے گفتگو نہیں کرتے ہیںکہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ بے شک اللہ کے بعد سب سے پہلے ، سب سے اہم اور سب سے زیادہ حقوق ماں باپ کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کے لیے لفظ احسان اختیار کیا ہے جس کے معنی حسن سلوک ، اچھا برتاؤ اور بہتر رویہ کے ہیں ۔ ایسے میں ماں باپ کا احسان تسلیم نہ کرنا اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے سے گھر اور معاشرے میں انسانیت باقی نہیں رہتی ۔ لیکن باپ ہونے کے ناطے اولاد کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنا بھی ضروری ہے ۔ یہ بھی لازم ہے کہ اپنے بچے کو بھی ایک ” فرد ” سمجھا جائے ، ایسا فرد جس کی اپنی شخصیت ہے ۔ بچے کو فرد ، شخصیت اور انفرادیت کا ضامل سمجھنے سے آپ بچے کی عمر کے بر عکس اس کی شخصیت سے واسطہ رکھیں گے تو یوں طرز عمل میں بھی تبدیلی آئے گی ۔ بچے میں بھی خودی ہوتی ہے جسے مجروح نہ کیا جائے ۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جس طرح ہر بڑی عمر کا آدمی کردار کے لحاظ سے صحیح معنوں میں بڑا نہیں ہوتا ، اسی طرح بہت سے بچے بھی اپنے عمل کے اعتبار سے محض بچے نہیں ہوتے ۔ بچے کو انفرادیت کا حامل فرد سمجھ لینے کے لیے صرف کتابی حوالوں اور مثالوں کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا اور دوسروں کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے ۔

مزید پڑھیں:  سچ اور جھوٹ کے درمیان حدفاصل