صوبائی حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میںایک انقلابی اقدام کے طور پر اپنی پاور ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے نجی کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد خیبر پختونخوا اپنی پاورٹرانسمیشن لائن بچھانے کا منصوبہ رکھنے والا ملک کا پہلا صوبہ بن گیا ہے۔پہلے مرحلہ میں مٹلتان سے مدین تک40 کلو میٹر طویل 132/220کے وی ٹرانسمشن لائن بچھائی جائے گی۔منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل سے صوبائی حکومت کو سالانہ تقریباً7ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے صوبے میں توانائی اور صنعت کے شعبوں میں انقلاب آئے گا۔ اس پاور ٹرانسمیشن لائن کے ذریعہ صوبائی حکومت اپنی بجلی سستے نرخوں پر مقامی صنعتوں کو بھی فراہم کرے گی جس سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو صوبہ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی ۔ دریں ا ثناء ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت نے نجکاری کے مرحلے سے گزرنے والی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قومی اثاثہ کو10ارب روپے کی موجودہ بولی سے بھی زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہے تاکہ اس ایئرلائن کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے اور دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شامل کیا جا سکے۔ اس عمل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایئر لائن حکومت پاکستان کے کنٹرول میں رہے قومی مفادات کا تحفظ ہو، اور ائر لائن کی عظمت اور روایات برقرار رہیں۔ پی آئی اے ہماری قومی شناخت کی علامت ہے اور اسے حکومتی انتظام میں رکھنے سے قومی مفادات کو فروغ ملے گا۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اس معاملہ میں صوبائی حکومت کو تفصیلات سے آگاہ کرے تاکہ خریداری کے عمل کو شفاف اور تیز طریقہ کار کے تحت آگے بڑھایا جا سکے ۔جس طرح تین صوبوں کے اپنے اپنے بنک کامیابی سے چل رہے ہیں اس طرح اگر صوبائی سطح پر اس طرح کے دو اور تجربات کئے جائیں تو حرج نہیں لیکن مشکل امر یہ ہے کہ سرکاری شعبے اور سرکار کی نگرانی میں ا دارے بے پناہ بدعنوانی غیر ضروری بھرتیوں اور بددیانتی کی انتہا کے باعث خسارے کاشکار ہو کر سرکاری خزانے پر یا تو بوجھ بنے رہتے ہیں یاپھربند کر دیئے جاتے ہیں ٹرانسپورٹ کے شعبے ہی کی مثال لیں تو نجی ٹرانسپورٹروں کا بیڑاترقی کی منازل طے کرنے کی مثالیں رکھتا ہے جبکہ حکومت کے زیر انتظام جی ٹی ایس جیسی عوامی سہولت کی حامل سروس بند ہو گئی بی آر ٹی کوحکومت کمپنی کی وساطت سے چلا رہی ہے اور آئے روز کمپنی کو واجبات کی عدم ادائیگی پر سروس معطل کرنے کی نوبت آتے آتے رہ جاتی ہے صرف یہی نہیں بری طرح خسارے کا شکار پاکستان ریلوے کی مثا ل بھی ہمارے سامنے ہے غرض ہر حکومتی کمپنی اور ادارہ منافع کی بجائے خسارے کا شکار ہوتی ہے یہاں تک کہ بجلی اور گیس کی سستی پیداوار کے باوجود عوام کی چمڑی ادھیڑنے کے باوجود ان اداروں کا خسارہ پورا نہیں ہوتا ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے خیبر پختونخوا کے ان دو منصوبوں کے حوالے سے کسی خوش امیدی کی گنجائش نہیں دوسری جانب اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے یا پھر عوام کی فلاح اور عوام کو استحصال سے بچانے کے اقدامات کی ضرورت کا جائزہ لیا جائے تو بھی سرکاری شعبے میں بڑے کاروبار کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں او رکوئی وجہ نہیںکہ یہ کاروبار خسارے کا شکارہوں سوائے اسکے کہ بددیانتی کی حد کی جائے خیبر پختونخوا سرکاری شعبے میں کامیابی سے چلنے والے کسی ادارے کی مثال بھی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی شفافیت کی مثال پیش کرنے کا کوئی موقع ہے صوبے میں ہائوسنگ جیسے محکمے میں بھی اگر بدترین بدعنوانی کے باعث منصوبے ناکامی کا شکار ہوں تو باقی کیارہ جاتا ہے پی ڈی اے اور پی ایچ اے اگر پراپرٹی ڈیلروں جتنا بھی منافع ادارے ثابت نہ ہوسکیں تو پھر باقی کسی شعبے میں ہاتھ ڈالنا کس حد تک منافع کا کام ہو گا اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے ٹرانسمیشن لائن بچھا کر صوبے کی سستی بجلی صوبے کی صنعتوں کو ارزان نرخوں پر فراہمی سنہرے خواب کی حد تک درست ہے اس کا دوسرا پہلو آج ہی کے اخبارات میں بجلی چوروں کے خلاف اقدام پر پیسکو کے عملے پرحملہ اور گھائل کرنے کی صورت میں موجود ہے صوبائی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائی تو اس کا بھی یہی حشر ہونا ہے بلاشبہ قومی فضائی کمپنی کی نجکاری قومی پرچم بردار کمپنی کی نجکاری ہے اور اس کی نجکاری کے لئے بولی بھی محض دس ارب روپے کی لگی ہے جیسے فضائی کمپنی نہیں کوئی ٹرانسپورٹ کمپنی ہو ، صوبائی حکومت بولی دے کر اسے حاصل کر سکے تو یہ حکومت اور صوبے کے لئے اعزا ز ہو گا جہاں تک اسے چلانے کا سوال ہے تو نجی فضائی کمپنیاں جب منافع میں چل سکتی ہیں تو اسے چلانے میں بھی مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن اصل بات اسے دیانتدارانہ ہاتھوں میں دینا اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلانے کا ہو گااس حوالے سے حسن ظن رکھنے کے باوجود کسی امید کا اظہار خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔