صوبائی دارالحکومت پشاور سے انتظامیہ جلد ہی نشے کے عادی دو ہزار افراد کواٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے نشے کے عادی افراد کی تعداد تو لاکھوں میں ہو گی یہ اعداد و شمار شاید سڑکوںپر سرعام پھر کر نشے کا استعمال کرنے والے افراد کی ہو گی جن کو منظر سے ہٹانے کے لئے عوامی دبائو تو ہے ہی ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کم از کم آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہی کے محاورے سے کام شروع کیا جائے پشاور میں حیات آباد سے لے کر موٹروے تک جا بجا سڑکوں پر پھرنے والے اور جگہ جگہ ڈیرہ ڈالے نشے کے عادی یہ افراد شہر اور حکومت دونوں کا جو چہرہ پیش کر رہے ہیں صرف اسی کا مداوا نہیں بلکہ ان کو دیکھ کر بچے جو اثر لیتے ہیں ان کو نشے کے حوالے سے جوتجسس ہوتا ہے اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ایسی کیا لذت ہے کہ یہ لوگ اپنا سب کچھ تیاگ کر نشے کی لت پوری کرنے کے لئے صبح شام رات سردی گرمی ہر وقت ہر لحظہ سرگردان نظر آتے ہیں یہ جو تجسس ہے کہ آخر یہ لوگ ماں باپ بیوی بچے یہاں تک کہ لباس اور خوراک پر بھی نشہ کو ترجیح کیوں دیتے ہیں نشے میں آخر ایسا کیا ہے کہ ان کوکسی چیز کا ہوش نہیں رہتا ہر غم غلط کیسے ہوتا ہے محبت ، غم امتحان میں ناکامی غرض آخر ہر ذہنی بوجھ سے چھٹکارا کیسے ملتا ہے یہ سب نا پختہ ذہنوں کے سوال اور سوچنے کی بات ہے بعض طالب علم بھی ذہنی دبائو کا حل اور امتحان میں کامیابی نشے کے استعمال سے حاصل کرنے کی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں غرض سوچا جائے او رکہانیاں سنی جائیں تو طرح طرح کی تاویلات اور علط فہمیاں سننے اور جاننے کو ملتی ہیں نشے کے شکار ہر شخص کی الگ کہانی ہے ٹرک ڈرائیور ، مشین چلانے والا ، ہنر مندوں اور مزدوروں و محنت کشوں کی الگ دنیا ہوتی ہے مگر ان کا نشہ چرس ہی تک محدود ہوتا ہے چرس پینے والوں کا الگ فلسفہ الگ کہانی ہوتی ہے معلوم نہیں اور کتنے لوگ کس کس چیز کا نشہ کس کس بنیادپر کرتے ہوں ان کی تعداد پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے اب ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کو روکنا کتنا مشکل کام ہے اور نشے کی سپلائی کے جو طور طریقے مروج ہیں ڈرگ مافیا کی طاقت و اثر و رسوخ جو فلموں میں نظر آتا ہے ممکن ہے اس سے کہیں بڑھ کر ہو اور حالات دیکھ کر لگتا بھی ایسا ہی ہے جس لعنت کا شکار اقتدار کی بڑی سے بڑی کرسی اور اختیار کی ہر کرسی پر براجماں افراد سے لے کر کوڑا کرکٹ چننے والوں تک ہوں اور اس زہر کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے ، افراد مرد و عورت طلباء و طالبات ڈاکٹرزنرسز یہاں تک کہ گھریلو خواتین تک متاثرہ ہوں اور چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی کے عین مصداق معاملہ ہوتو پھر جوبھی جتن کی جائے کم ہی ہو گی ان مشکلات کے مد نظر صوبائی دارالحکومت میں انسداد منشیات کی مساعی کے ذمہ داروں کی مشکلات کامیابی و ناکامی کے امکانات عیاں معاملہ ہے بہرحال ان سے امید ہے کہ وہ اپنا کام کریں گے اور یہ ایک آدھ دن کا کام نہیں جہد مسلسل کا متقاضی ہے منشیات کا پھیلائو اور نشے کی عادت کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ کا بڑا سبب ہے ایسے میں کبھی کھبار کی مہم جوئی پر اکتفا کی غلطی ہے اس کالم کی تیاری میں میں نے جو مطالعہ کیا وہ میرے مشاہدات سے مختلف نکلا یہ باقی میرے ہی مشاہدات ہیں افراد کے مشاہدات بہرحال الگ الگ اور تاثرات بھی مختلف ہی ہوتے ہیں۔بنا بریں میں نے حاصل مطالعہ کا انتخاب ماہرین کی سفارشات ہی کا کیا یہ بھی بس امکانات ہی کی بات ہے شافی علاج تو منشیات کی پیداوار ہی نہ ہونے دینے کا ہے جوکسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی فیصلوں اور کوششوں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے پاکستان میں خصوصاً خیبر پختونخوا اور پشاور میں اگر منشیات کی روک تھام کے شافی اقدامات کرنے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کے لئے افغانستان میں سخت اقدامات کی ضرورت ہو گی جو ہماے بس میں نہیں افغانستان صرف منشیات کی پیداوار کا ہی عالمی گڑھ نہیں پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی بھی بدقسمتی سے وہاں سے ہوتی ہے اور عدم تعاون بلکہ مخاصمت کی صورتحال کرزئی حکومت سے کہیں بدتر ہے صرف یہی نہیں منشیات افغانستان سے لا کر یہاں فروخت کرنے اور یہاں سے دنیا کو سپلائی کرنے کا دھندہ بھی افغانیوں ہی کے ہاتھ ہے جسے وہ ضم اضلاع سے بالخصوص اور دیگر علاقوں سے بالعموم مقامی افراد کو ملا کر اپنا نیٹ ورک بناتے بھی ہیں چلاتے بھی ہیں اور پھیلاتے بھی ہیں اس پر قابو پانا بھی صرف صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں مرکزی حکومت اور اس کے ادارے بھی مل کر جتن کریں تب بھی سو چھید رہ جائیں گے اسے بھاری پتھر سمجھ کر ایک طرف رکھ کر اب محولہ سفارشات کی بات کرتے ہیںجن پر بھی پوری طرح عملدرآمد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی بہرحال ماہرین کی شفارشات ہیں کہ انسان کو انسانیت کا اخلاق اور مذہب کی تعلیم دی جائے تا کہ وہ اچھائی اور برائی کا فرق کر سکیں۔
معاشرے میں اعلیٰ سرکاری عہدیدار یا سیاسی لیڈرز جو مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ مجرموں کی پشت پناہی نہ کریں۔ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لئے ایک شعبہ ہو جو تشخیص کرے کہ اس کی مجرمانہ ذہنیت کے اسباب و محرکات کیا ہیں اور اس تشخیص کے بعد مناسب علاج کا اہتمام کیا ہے۔
برسر روزگار بنانے کے لئے فن اور مختلف کام کاج سکھائے جائیں اور اچھے شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے لئے روزگار فراہم کیا جائے نیز ایسے وسائل مہیا کیے جائیں تا کہ معاشرے میں صحیح طور پر ایڈجسٹ ہو سکے۔
اسلامی سزائوں حدود اور تعزیرات کو لاگو کیا جائے تا کہ فتنہ کے عادی مجرم کے دل میں جرم کی سزا کا خوف پیدا ہوا۔
تعلیم کو عام کیا جائے تا کہ جہالت سے نجات ملے اور معاشرے میں بہتر زندگی بسر کرنے کا سلیقہ آئے۔
نشے کے عادی مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔
دینی تبلیغ کو نصیحت ہوتا کہ اخلاقی و روحانی اصلاح کے لئے تیار ہوں۔
پولیس کا ادارہ انسداد منشیات میں اہم کردار ادا کر تا ہے اس لئے پولیس کو فرض شناسی سے کام لینا چاہئے۔
سماجی ترقی سے فرد کو معاشرے میں کردار ادا کرنے میں مدد دیتی ہے اس لئے افراد معاشرہ کے لئے سماجی تربیت کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے تاکہ ہر فرد معاشرے کا ذمہ دار شہری بن کر سامنے آئے۔
پورا معاشرہ ایک طرف اور تعلیمی ادارے ایک طرف ، تعلیمی ادارے جہاں اس ملک کے مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں وہاں منشیات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں پوری دنیا میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچایا جائے کیونکہ اس سے ان کی قدرتی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔پورے معاشرے اور بالخصوص نوجوانوں کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے سول سوسائٹی ، علمائے کرام ، اساتذہ ، والدین اورحکومت و انتظامیہ سبھی کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مل جل کر آنے والے کل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے منشیات کے خلاف کام کرنا بڑی عبادت اور جہاد ہے یہ نہی عن المنکر کی سب سے عمدہ قسم اور تقاضا ہے جس میں علمائے کرام سے لے کر تبلیغی حضرات سبھی کو دین اور فلاح کااہم حصہ گردان کر حصہ لینا چاہئے ۔
Load/Hide Comments