بات قانون کی نہیں ، طاقت اور قوت کی ہے ، قانون کے پاس صرف ا لفاظ ہیں ، نظریہ ہے ، بیانیہ ہے مگر قوت نافذہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت اس مصرعہ کی مانند ہے کہ ”دیکھئے ، دیکھتے ، دیکھتا رہ گیا” مگر طاقتور وں کے ہتھکنڈے قانونی موشگافیوں میں نہیں پڑتے ، نہ ہی شف شف شفتالوکرتے ہیں بلکہ سیدھا سیدھا انکار کرتے ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس کئی ہتھکنڈے ہوتے ہیں وہ اپنی ہتھکنڈوں کے ذریعے قانون کی قوت نافذہ کو ناکامی سے دوچار کردینے کی مہارت رکھتے ہیں ان لاتعداد یا کئی ہتھکنڈوں سے آپ ہم سب بخوبی واقف ہیں تمہید خاصی لمبی ہو گئی ہے کیوں نہ سیدھے سیدھے مقصد پر آجائیں اور ایسے مسئلے پر جس کے حوالے سے گزشتہ کئی مواقع پر عدالتوں کے علاوہ اہم سرکاری اداروں کی جانب سے متعدد بار نشاندہی بھی کی گئی اور ان اداروں صنعتی ، کاروباری یونٹوں پر پابندی لگانے کے احکامات بھی دیئے گئے جو عوام کی صحت کے ساتھ کھیلتے ہیں ، مگر ان اداروں کے ”طاقتور” مالکان نے ایسے تمام ”احکامات” کو کھوہ کھاتے لگانے میں کامیابی حاصل کرکے ”اصل قوة نافذہ” ہونے کا ثبوت فراہم کیا عزیز حامد مدنی مرحوم نے کہا تھا
طلسم خواب پریشاں و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے ، سفر میں ہوتے ہیں
اب سرکار بھی کیا کرے ، وہ تو قانون بنا سکتی ہے ، اس کو نافذ کرنے کے احکامات صادر کرسکتی ہے مگر آگے جو لوگ اسی قانون کے نفاذ کے لئے مقررہ ہوتے ہیں وہ اگر ”بوجوہ” طاقتوروں کے ساتھ ”میل ملاپ ، گٹھ جوڑ یا مک مکا”پر اتر آئیں تو قا نون بنانے یا احکامات صادر کرنے والے کیا کر سکتے ہیں ویسے بھی یہ کم بخت ”مک مکا” اس قدر دلکش اور جاذب نظر ہے کہ لوگوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اصل مسئلہ کیا ہے اس سے ایک بار پھر ہم ہٹ گئے تو چلیں مزیدوقت ضائع کئے سیدھے سیدھے صورتحال کی وضاحت کر دیتے ہیں اور اس حوالے سے جو تازہ خبر آئی ہے وہ یہ ہے کہ منرل واٹر کی تیس برانڈز کو پینے کے لئے غیر معیاری قرار دے دیاگیا ہے پی سی آر ڈبلیو آر سہ ماہی طور پر بوتلوں میں بند پانی کے مختلف برانڈز کی تجرباتی رپورٹ جاری کردی ہے جن کے پینے سے مختلف بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے خبر کے مطابق 205 میں سے 30 برانڈز غیر معیاری ، ایک برانڈ میں پی ایچ مقررہ مقدار سے کم جبکہ 19 برانڈز جراثیم سے آلودہ پائے گئے گویا سبحان اللہ اس سے پہلے کی بات آگے بڑھائی جائے کئی برس پہلے ایک خبر آئی تھی جس کے مطابق زہر کھانے والوں نے شکایت کی تھی کہ انہوں نے جس زہر کو زندگی سے ”مک مکا” کے لئے استعمال کیا تھا اس میں بھی ملاوٹ تھی اس لئے ان کے مقاصد پورے نہ ہوسکے تھے ، تاہم ہماری دانست میں یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں زہر بھی ملاوٹی ملا، یعنی بقول شاعر ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں پر یوں بھی نہ ہوا ۔ خیر بات ہو رہیتھی بوتل بند پانی میں نقائص کی تو ان کی نشاندہی توجیسا کہ خبر سے ظاہر ہے سہ ماہی بنیاد پر ہوتی ہے مگر ناقص کمپنیوں کے خلاف کیا اقدام اٹھائے جاتے رہے ہیں اس حوالے سے روای چین ہی چین لکھتا ہے ‘اگرچہ ہمارے ہاں صرف پانی ہی میں ملاوٹ(یا انہیں صاف نہ کرنے) کے جرم میں کسی سے کوئی تعرض نہیں رکھا جاتا ، بلکہ ملاوٹ کا یہ سلسلہ تو نہ جانے کتنی صدیاں سے ”دودھ” کے ساھ منسلک رہا ہے اور دودھ میں ملاوٹ کی کئی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سب سے اہم ”دودھ کا دودھ پانی کا پانی” والی ہے اور جو لوگ اب بھی دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرتے ہیں انہیں ہم ”جنتی” سمجھتے ہیں کیونکہ اس دور میں اگر کوئی شخص دودھ میں صرف پانی ہی ملا کر فروخت کر رہا ہے تو اسے سراہنا چاہئے کیونکہ وہ کسی کی صحت سے تو نہیں کھیلتا ناں ، مرزا محمود سرحدی نے لگ بھگ 70 برس پہلے اس پربھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا
محتسب سے کہوں تو کیا جا کر
میری مانند وہ بھی روتا ہے
پہلے ہوتا تھا دودھ میں پانی
آج پانی میں دودھ ہوتا ہے
مرزا صاحب تو خیر اپنی ہی سوچ کے آدمی تھے ، مگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگرآج مرزا صاحب زندہ ہوتے تو اس صورت حال پر کتنے قطعات کہہ کر عوامی سطح پر احتجاج کر چکے ہوتے کہ اب تو یار لوگوں نے کیمیکل ملے ”مصنوعی” دودھ کا دھندہ شروع کر دیا ہے جوسیدھا سیدھاکینسر کا باعث بنتا ہے او رکینسر کا اختتام موت پر ہی ہوتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ جس طرح ماضی میں زہر میں ملاوٹ کی خبر آتی تھی ، یہ مصنوعی(زہریلا) دودھ اگر کسی کو کچھ نہیں کہتا اور ”حکام” اس سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ہاں کبھی کبھار ”منہ کا ذائقہ” بدلنے کے لئے ایک آدھ گاڑی پکڑ کر اس مصنوعی دودھ کو بہا کر اپنے ہونے کا پتہ دے دیتے ہیں اور باقی چمک ہی چمک ، اس لئے اگر فارملین کے استعمال سے نقلی دودھ کو اصل بنا کر فروخت کرنے سے کسی کو کچھ نہیں ہوتا تو بوتلوں میں بند”ناقص” پانی کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ متعلقہ ادارہ ہر سہ ماہی میں منرل واٹر بوتلوں کا جائزہ لے کر جو اطلاعات میڈیا کوجاری کر دیتا ہے اس سے کم از کم وہ اپنی تنخواہوں کو جائز اور حلال تو قرار دلوا دیتا ہے ہم ویسے تو یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ اگر صرف ”اطلاعاً عرض” سے آگے بڑھ کر ان فیکٹریوں پر پابندی لگانے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے جو ناقص پانی عوام پر فروخت کرکے کرووڑں کی آمدن کرتے ہیں ، یا پھر کم از کم اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ ا ن فیکٹریوں کے نام اخبارات ، میڈیا پرمشتہر کر دیئے جائیں تاکہ عوام ان سے ”ہوشیار” ہو سکیں مگر ”سرکار والا مدار” کو بھی معلوم ہے کہ کروڑوں کے ا شتہار دینے سے قومی خزانے کو مزید نقصان کا اندیشہ ہے اس لئے رہنے دیں اوراس بھارتی فلمی نغمے سے لطف اندوز ہوں جس میں پانی پر خوبصورت تبصرہ کیا گیا ہے کہ
پانی اے پانی تیرا رنگ کیسا؟
جس میں ملا دو بنے اس جیسا
Load/Hide Comments