ویب ڈیسک: معلومات اور خدمات تک رسائی کمیشن، وقار نسواں کمیشن، پناہ گاہ کمیشن، انرجی ڈویلپمنٹ اور آئل اینڈ گیس کمپنی سمیت خیبرپختونخوا کے 11انتہائی اہم ادارے سربراہان اور ممبران کی عدم تعیناتی کے باعث برسوں سے نامکمل ہیں۔ سربراہان نہ ہونے کے باعث اداروں کو آپریشن میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ عملی طور پر بیشتر امور بھی معطل ہیں۔
تحفظ اطفال کمیشن ایک دہائی سے چیف سے محروم ہے، ڈاکٹر مراد پہلے چیف تھے جو 2014ءمیں مدت مکمل ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد نیا چیف نہیں لگایا جا سکا، ڈپٹی چیف کو اضافی چارج دے کر کمیشن چلایا جا رہا ہے ۔
وقار نسواں کمیشن کی چیئرپرسن کا عہدہ بھی ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود خالی ہے، اس عہدے پر ڈاکٹر رفعت سردار جون 2023ءمیں اپنی مدت ملازمت مکمل کر چکی ہےں جس کے بعد نئی چیئرپرسن کی تعیناتی اب تک نہیں ہوسکی۔
خدمات تک رسائی کمیشن میں صرف ایک کمشنر تعینات ہے جبکہ چیف کمشنر اور دوسرے کمشنر کاعہدہ خالی ہے، چیف کمشنر سلیم خان کی مدت دسمبر 2023ءمیں مکمل ہونے کے بعد یہ عہدہ خالی ہے اور چیف کمشنر نہ ہونے سے خدمات تک رسائی کمیشن بھی انتہائی محدود پیمانے پر کام کررہا ہے، کمیشن کا ایک سال سے سیکرٹری کا عہدہ بھی خالی ہے ۔
معلومات تک رسائی کمیشن میں صرف چیف کمشنر فرح حامد تعینات ہیں ان کے ساتھ دو مزید کمشنرز کی عدم تعیناتی کے باعث کمیشن کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے سے قاصر ہے، فرح حامد کا بھی آخری سال شروع ہوگیا ہے۔
چیف ایگزیکٹو پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے چیف کا عہدہ بھی رواں برس خالی ہونے کے بعد اب تک تعیناتی سے محروم ہے۔ صوبائی حکومت نے اپریل 2024ءمیں چیف ایگزیکٹو کی آسامی کا اشتہار جاری کیا تھا جس پر تاحال تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔
خیبر پختونخوا آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ بھی تقریباً ساڑھے تین سال سے خالی ہے اور جنرل منیجر کو اضافی چارج دے کر کمپنی کے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر علی محمود فروری 2024ءمیں چھوڑ گئے، جس کے بعد ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر عاکف کو اضافی چارج حوالہ کردیا گیا ۔
خیبر پختونخوا میں پناگاہوں کیلئے ایکٹ کے ذریعے 2020ءمیں خصوصی کمیشن قائم کیا گیا، نیلم طورو کی تین سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد مذکورہ کمیشن بھی بند پڑا ہے اور نئی تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔ پولیس ایکٹ کے تحت قائم کیا جانیوالے پبلک سیفٹی کمیشن نہ تو صوبائی سطح پر کام کررہا ہے اور نہ ہی ضلعی سطح پر قائم کیا جاسکا ہے۔
صوبائی اسمبلی میں گزشتہ برس آنیوالے ایک سوال کے جواب میں پولیس ڈیپارٹمنٹ نے سیکشن 57کو عدالت میں چیلنج کئے جانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کمیشن کی صوبائی اور ضلعی سطح پر غیر فعالی کو تسلیم کیا تھا۔
میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس ٹربیونل بھی عرصہ دراز سے خالی ہے چند ماہ قبل سابق چیف جسٹس ابراہیم خان کو ٹربیونل میں تعینات کیا گیا تاہم انہوں نے معذرت کرلی جس کے بعد دوبارہ تعیناتی کیلئے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔
صوبائی فنانس کمیشن 2019ءسے نامکمل ہے، صوبائی وزیر خزانہ اور صوبائی وزیر بلدیات سمیت سرکاری ملازمین پر مشتمل ممبران کمیشن کا اجلاس ہر سال کر کے فنڈز کی تقسیم کر دیتے ہیں تاہم لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کمیشن میں بلدیاتی نمائندوں کیلئے مختص نمائندگی اب تک نہیں دی جا سکی ہے۔
خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے قیام سے لیکر اب تک اس کا بورڈ نہیں بنایا جا سکا ہے اور اتھارٹی بغیر بورڈ کے کام کررہی ہے۔ کالام، دیراور کالاش سمیت متعدد ترقیاتی اتھارٹیز کے قواعد و ضوابط اب تک نہیں بنائے جا سکے ہیں ان میں عملہ بھی پورا نہیں ہے جس کے باعث یہ اتھارٹیز بھی عملی طور پرموثر نہیں ہیں۔یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے 11انتہائی اہم ادارے سربراہان اور ممبران کی عدم تعیناتی کے باعث برسوں سے نامکمل ہیں۔
Load/Hide Comments