ویب ڈیسک: انتظار پنجوتھا بازیابی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تھانہ کوہسار کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے بانی پی ٹی آئی کے فوکل پرسن انتظار پنجوتھا بازیابی کیس کی درخواست پر سماعت کی، عدالت نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ آپ ایک دو دن میں انتظار پنجوتھا سے رابطہ کر کے ان کا بیان لے لیں اور قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ایک مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے دوران سماعت کہا کہ پرسوں رات کو آئی جی کی کال آئی اور بتایا کہ ریکوری ہو گئی ہے، میں نے تھانہ کوہسار جا کر انہیں لیا، ان کی حالت اچھی نہیں تھی، میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کیا لمحہ تھا جب میں نے انہیں دیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کل کو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، ہمیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، انتظار پنجوتھا ابھی لاہور میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی بازیاب وکیل کی ذہنی اور جسمانی حالت ایسی نہیں ہے، کچھ دن بعد پولیس اس معاملے کو مکمل انویسٹی گیٹ کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک مہذب معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب! آپ بھی دیکھیں کہ مسنگ پرسنز کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ ہم اس کو اغوا برائے تاوان کا واقعہ کے طور پر ہی لے لیں تو پھر بھی ان واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل کی کوششوں سے بازیابی ہوئی لیکن اس بات کو منفی انداز میں لیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی خراب ہے تو کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اسلام آباد میں بھی اب کراچی والی صورتحال ہوگئی ہے۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب پولیس ہم جیسے دہشت گردوں کے پیچھے ہو گی تو ڈکیتیاں بھی ہوں گی اور جرائم بھی بڑھیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے کوشش کی، وہ لاء افسر ہیں لہٰذا ان کے خلاف منفی مہم نہیں ہونی چاہیے، میں نے انتظار پنجوتھا سے متعلق ٹی وی پر دیکھا اور بہت برا لگا، یہ ادارے اور تمام لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، مسنگ پرسنز اور سٹریٹ کرائمز بہت بڑھ گئے ہیں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی وکیل انتظار پنجوتھا کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔
Load/Hide Comments