منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے

آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو 980 ارب روپے ٹیکس وصولیوں میں 130 ارب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کی ہدایت کر دی ہے، بصورت دیگر ٹیکس اہداف کے حصول میں ناکامی کے باعث قرض کی دوسری قسط میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ذرائع کے مطابق آئندہ مہینوں کے شارٹ فال کا تخمینہ لگا کر 500 ارب کا منی بجٹ ا سکتا ہے ،جبکہ 60 ارب کے ایف بی آر انفورسمنٹ کیلئے آرڈیننس بھی لایا جا سکتا ہے ،ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے بھی چیئرمین ایف بی آر سے پرفارمنس رپورٹ طلب کر لی ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں چین، سعودی عرب، امارات، کویت اور دیگر مسلم مملکتوں کی جانب سے پاکستان کیساتھ جو اقتصادی منصوبے شروع کرنے اور مختلف منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر سمجھوتے ہوئے اور جن کی وجہ سے حکومت نے ملک کی اقتصادی حالت میں مثبت تبدیلیوں کے حوالے سے بیانیہ جاری کیا، آئی ایم ایف کی جانب سے تازہ ترین انتباہ کو کس کھاتے میں رکھا جائے حکومت ان ممالک کیساتھ اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے ہونیوالے معاہدوں کے بعد ملک میں مہنگائی کی نمایاں کمی کے اشارے دے رہی تھی اور عوام کو یقین دلا رہی تھی کہ جلد ہی ملک میں عوام کیلئے آسانیاں فراہم ہونا شروع ہو جائیں گی ،بیرونی سرمایہ کاری آنے سے ملک کے حالات مثبت سمت میں جانے کا آغاز ہو جائیگا مگر معروضی حالات ان دعوؤں کی تصدیق پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے ،بلکہ نہایت افسوس کیساتھ گزارش کرنا پڑ رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی کے بالکل برعکس اشیائے صرف اور خدمات کے نرخ واپس بڑھ رہے ہیں، ابھی تقریباً تین روز پہلے گھی اور خوردنی تیل کی فی کلو اور فی لیٹر قیمتوں میں 100 روپے کے لگ بھگ اضافے کی خبریں سامنے آئی تھیں جس سے عوام پر مزید مہنگائی بڑھنے سے جو اثرات مرتب ہوں گے اس پر کوئی تبصرہ ممکن ہی نہیں ،یکم نومبر سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے زندگی کے تمام شعبے متاثر ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہی وہ بنیادی اشیاء ہیں جن کی قیمتوں میں کمی بیشی سے زندگی کے تمام دیگر مصارف متاثر ہوتے ہیں اگرچہ حکومت اپنے اقدامات کو مارکیٹ میں بہتری سے جوڑ رہی ہے مگر برسر زمین حقیقت یہ ہے کہ عام عوام کیلئے مہنگائی کی شرح میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے بلکہ کما ڈئیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، حالیہ دنوں میں دالوں کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں آتی رہی ہیں، چینی کی برآمدگی کی اجازت دیدی گئی ہے جس کی وجہ سے عام بازاروں میں چینی کے نرخوں پر اثرات پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور آنیوالے دنوں میں مزید اضافے کے خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ تماشہ کئی عشروں سے ہم دیکھتے آئے ہیں کہ پہلے شوگر مافیا ملک میں چینی کی ”اضافی پیداوار ”کے بہانے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت طلب کر کے ضرورت سے کہیں زیادہ چینی برآمد کر لیتا ہے جس سے اندرون ملک بالآخر چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے یہی شوگر مافیا (ملی بھگت سے) دوسرے ممالک سے ناقص کوالٹی کی چینی درآمد کر کے ایک بار پھر کھربوں کا ٹیکہ عوام کو لگا کر تجوریاں بھر لیتا ہے، غرض زندگی کے جس میدان میں بھی ہو ہر جگہ مافیا سرگرم ہے جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور یہ جو ملک میں مہنگائی کی کمی کے دعوے کئے جا رہے ہیں ان کی فی الحال تو کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اب جو تازہ خبریں سامنے آئی ہیں ان سے تو آگے چل کر عوام کے ہوش ہی اڑ جائیں گے، کیونکہ اگر 500 ارب کے منی بجٹ لانے کو عملی شکل دی جائیگی تو آئی ایم ایف سے قرضے کی دوسری قسط کی وصولی میں کن سخت مشکلات سے قوم کو گزرنا پڑیگا اس کے بارے میں سوچنا ہی سوہان روح بن جائیگا، ظاہر ہے اگر آئی ایم ایف سے قرضے کی دوسری قسط حاصل کرنی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ائی ایم ایف کو قرضے کی مع سود ادائیگی کی یقین دہانی چاہیے اور پہلے سے قرضوں میں ڈوبی ہوئی ملکی معیشت کو اس قابل بنانا لازمی ہے کہ ائی ایم ایف کو اطمینان ہو کہ اس کے قرضے کی بروقت ادائیگی ہر صورت ممکن بنائی جائیگی، اس مقصد کیلئے منی بجٹ لانا نہ صرف لازمی ہوگا جس میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائیگا اور نئے ٹیکس عوام کی چمڑی ادھیڑ کر ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں، ایسی صورت میں ملک کے اندر مہنگائی کے جو طوفان برپا ہوں گے ان کے عوام پر اثرات کے حوالے سے سوچا تو جا سکتا ہے جبکہ ان کی عملی صورت سے عوام کن مشکلات سے دوچار ہوں گے اس کا تصور ہی ناقابل یقین نتائج مرتب کریگا، بدقسمتی سے ملک کا نہایت ہی محدود ایلیٹ طبقہ جو نہ صرف ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہے بلکہ قوت ناقذہ میں بھی اس کا گہرا اثر و رسوخ عام عوام کی نسبت اپنے حصے کا پورا ٹیکس ادا کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ،یہی وہ کارن ہے کہ ہمیشہ عوام ہی عذاب جھیلتے ہیں، تاہم اب یہ سوچ بدلنی ہوگی ورنہ حالات نہایت خراب ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکے گا۔

مزید پڑھیں:  سچ اور جھوٹ کے درمیان حدفاصل