جیلوں کیلئے اصلاح کے اقدام؟

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحی آفریدی نے ملک بھر کی جیلوں کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اصلاح احوال کیلئے اقدامات پر زور دیا، جیل اصلاحات سے متعلق ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ملک بھر میں جیلوں کی صورتحال تشویشناک ہے، جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، کل گنجائش 66 ہزار625مگر قیدیوں کی تعداد 1لاکھ 8 ہزار643 ہے، قیدیوں میں 36 ہزار128ملزمان ٹرائل شروع ہونے کے انتظار میں ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ جیلوں کی اس صورتحال کی ذمہ داری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے کئی عوامل ہیں، ایک تو یہ ہے کہ خود عدالتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو ملک کے اندر چند سیاسی عناصر کے مقدمات کو تو اولیت کا درجہ دیتی ہیں اور بعض سیاسی کرداروں کیخلاف مقدمات کی شنوائی تو دیگر عام عوام کے مقابلے میں ترجیحی بنیادوں پر سنتی ہیں جبکہ دیگر قیدیوں کے مقدمات پہلے تو عدالتوں میں شنوائی کیلئے مقرر ہی نہیں کئے جاتے اور اگر خوش قسمتی سے کسی کا مقدمہ لگ بھی جائے تو اچانک کسی سیاسی مقدمے کو فوری شنوائی کے پراسس سے گزارتے ہوئے ریگولر بنیادوں پر مقرر مقدمات کو پس پشت ڈالنے کی صورت سامنے آتی ہے، مستزاد یہ کہ ان سیاسی عناصر کو سزا سے بچانے کیلئے وکلاء برادری جس قسم کے تاخیری حربے اختیار کرتی ہے اور مقدمات کو حتمی انجام تک پہنچنے نہیں دیتی اس سے تاریخ پر تاریخ تو پڑتی ہے مگر دیگر مقدمات بھی بلا وجہ تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں ،اس کا علاج حالیہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت سیاسی اور دیگر مقدمات کی علیحدگی پر بھی بار کونسلز کے اہم کردار معترض ہیں جبکہ ججز کی تعداد میں اضافے کے فیصلے سے بھی بعض لوگ متفق نہیں ہیں، حالانکہ اس سے مقدمات کو نمٹانے اور سیاسی آئینی مقدمات علیحدہ جبکہ سول مقدمات کے الگ کرنے سے بھی نہ صرف عدالتوں پر بوجھ میں کمی آئیگی، مقدمات کو نمٹانے میں کم وقت لگے گا اور یوں جیلوں پر بھی دباؤ کم ہو سکے گا، لیکن ہمارے ہاں روایتی” میں نہ مانوں” والی کیفیت کب ختم ہوگی اور عوام کو آئینی اور قانونی موشگافیوں سے نجات ملے گی ،یہ ایک اہم مسئلہ ہے، جس کو حل کرنے میں مقننہ ،عدلیہ (بینچ وبار) اور انتظامیہ باہم اتفاق سے کردار ادا کر سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  غبار دل